mazahiruloom@gmail.com 9045818920

عمارات

دفتر مدرسہ قدیم

مظاہرعلوم (وقف)کی ابتداء محلہ قاضی کی ایک مسجد میں ہوئی تھی جس کو’’چوک بازداران کی مسجد‘‘کہا جاتا ہے۔اساتذہ اور طلباء وہیں رہکر درس وتدریس میں مشغول رہتے تھے ۔کچھ عرصہ بعد اسی مسجد کے پاس ایک مکان کرایہ پر لیا گیا۔اور طلباء کی کچھ تعداداس میں رہنے لگی۔
طلباء کی روزافزوں تعدادکی بناپریہ مسجد اور مکان بھی جلد ناکافی ہوگیا اس لئے ضرورت پیش آئی کہ مدرسہ کیلئے ایک مستقل عمارت بنوائی جائے تاکہ اساتذہ اور طلباء کو سہولت وراحت ملے اور طلباہروقت اساتذہ کی نگرانی میں رہکر صحیح اور دینی تربیت حاصل کرسکیں۔
اس مقصد کے لئے ایک جدید عمارت تیار کرائی گئی جوآج کل’’مدرسہ قدیم‘‘کے نام سے مشہور ہے۔اس عمارت کے لئے عالی جناب الحاج شیخ فضل حق صاحب رئیس سہارنپور نے ایک حصہ زمین وقف فرمایا باقی زمین مدرسہ نے اپنے طورپر خریدی۔۱۳۹۱ھ مطابق ۱۸۷۴ء میں اس عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور ۱۸۹۲ء میں مکمل ہوئی۔
سن تعمیر کے اعتبار سے مدرسہ کا نام مظہرعلوم اور تکمیل تعمیر کا لحاظ کرتے ہوئے مظاہرعلوم قرارپایا۔عمارت مکمل ہوجانے کے بعد جملہ طلبہ محلہ قاضی سے منتقل ہوکر یہاں آگئے۔
یہ عمارت مسجد مدرسہ قدیم( مسجداولیاء )کتب خانہ،دفاتر مدرسہ پرمشتمل ہے۔

دارالطلبہ قد یم

مختلف علوم وفنون کی درسگاہیں ،دارالحدیث ،دارالتفسیر،مسجدکلثومیہ ،انجمن ہدایت الرشید کا مرکزی دفتر اوراس کا کتب خانہ اوردوکشادہ ہال کے علاوہ طلبہ کی رہائش گاہیں موجودہیں۔
اس عمارت کی تعمیرسے پہلے طلبہ مختلف مساجدو غیرہ کے حجروں میں متفرق طورپر رہتے تھے ،۱۳۲۶ھ کو اس کی تعمیر کاداعیہ پیدا ہوا ،ایک ہزار گززمین دوروپے فی گز کے حساب سے خریدی گئیاور۲/ذی قعدہ ۱۳۲۸ھ کو جمیع علماء وصلحاء کے ہاتھوں اس کی بناء رکھ دی گئی جن میں حضرت مولانا خلیل احمدؒسہارنپوریؒ بھی تھے ،۱۳۳۳ھ میںاس کے تحتانی حصہ کی تعمیر ختم ہوئی اور۱۳۳۴ھ میں اوپر کی درسگاہوں کے بننے کے بعد تعمیر بہمہ نوع مکمل ہوگئی ،تکمیل کے بعد ۲۳/ذی الحجہ ۱۳۳۴ھ کو۹/بجے صبح ایک جلسہ ہوا جس میں مختلف علماء اورعمائدین شہر نے شرکت کی اورحضرت مولاناخلیل احمد سہارنپوری ؒ نے مختصر سی تقریر فرمائی اورطلبہ کوترمذی شریف کا سبق شروع کرایا اوردعاپر جلسہ ختم ہوا ،یہ عمارت نہایت عمدہ ، نفیس ،سادہ اورخوشنما اور مستحکم وپائیدار ہے اس میں ہر چیز اپنی جگہ پر بڑے سلیقہ سے انتہائی موزوں طور پر بنی ہوئی ہے اورحضرت سہارنپوریؒ کی زیر نگرانی تعمیر ہوئی ۔ غربی جانب دوسری منز۔ل پرایک بڑا ہال ہے جو ۱۳۳۹ھ میں تعمیرہوا ۔
اس عمارت کی تعمیر وتکمیل کے لئے حضرت سہارنپوریؒ نے بڑی جدوجہد وجانفشانی سے کام لیا ،بسا اوقات راج مزدوروں کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اینٹیں اور مٹی تک اٹھالیتے،اس عمارت میں ایک بلند وبالادارالحدیث بھی بنی ہوئی ہے۔
تقریباًسوسال بعدموجودہ ناظم حضرت مولانامحمدسعیدی مدظلہ نے اس کی قدامت کے سبب شکست وریخت اورپوری عمارت پر پلاستراوردروازے کی تزئین وتعمیر نیزخوبصورت مینارے بنوائے ،نئے اندازسے تما م حجرات کے دروازے بھی نصب کرائے ،اور اس کابھرپورلحاظ رکھا گیا کہ اکابر کی اس یادگارمیں کوئی قابل ذکر ترمیم اورتغیر وتبدل نہ ہو،اس تزئین وتجدیدکے بعد یہ عمارت ماشاء اللہ اورزیادہ پرشکوہ ہوگئی ہے ۔

دارالطلبہ جدید

۱۳۴۸ھ مطابق ۱۹۲۸ء کو دارالطلبہ جدید بنانے کے لئے ایک طویل وعریض زمین خریدی گئی ،یہ جگہ اس وقت بالکل غیر آبادتھی چاروں طرف جنگل اورباغات تھے شام ہوجانے کے بعد اس طرف جاتے ہوئے خوف محسوس ہوتا تھا،ارباب مدرسہ کا خیال تھا کہ یہ جگہ شہر کے ہنگاموں سے دورہے تعلیم کیلئے جس اطمینان وسکون کے ماحول کی ضرورت ہے وہ یہاں مل جائے گا۔
اس مصلحت اور فائدہ کوسامنے رکھ کر یہاں زمین خریدی گئی تھی لیکن کچھ ہی سال بعد یہ تمام جنگلات اور باغات انسانی آبادیوں میں بدل گئے دورتک اونچے اونچے مکانات اورکارخانے بن گئے مشینی نظام اور زندگی کی ہلچل اوربھاگ دوڑنے ان جنگلوں بربھی قبضہ جمالیا اس وسیع عمارت کا آغاز مسجد کی تعمیر سے شروع ہوا اس احاطہ میں پچیس کمرے چاردسگاہیں اور متعدد برآمدے بنائے گئے ہیں ان کے علاوہ ایک مسجد اس کیلئے حوض،متعددغسل خانے،حمام اور دومنزلہ جدیددارالحدیث بھی ہے۔یہ عمارت اپنے رقبہ اور پھیلائو کے اعتبار سے باقی تمام دوسری عمارتوں سے بڑھی ہوئی ہے اور مکمل طورپر دومنزل ہے۔
حضرت مولانا عبد اللطیف صاحب ناظم مدرسہ کے دورمیں۱۲/محرم ۱۳۵۵ھ یک شنبہ کو دوپہر کے وقت مسجد کے سنگ بنیاد سے عظیم تعمیرات کا سلسلہ شروع ہوا۔۱۳۵۹ھ سے ۱۳۶۳ھ تک کل چار کمرے تیار ہوئے اس کے بعد زمانۂ جنگ کی بے حد گرانی کے سبب کئی سال تک تعمیر بند رہی ،۱۳۷۳ھ میں مسجد کا برآمدہ تیار ہوا اوراس کے بعد ۱۳۷۸ھ میںتعمیر شروع ہوئی اوررفتہ رفتہ مسجد کی دونوں جانب کی سہ دریا ں،احاطہ کی شمالی وشرقی دیواریں ،دارالحدیث جدید،حوض ،کشادہ درسگاہیں،طلبہ کے لئے اقامت گاہیں،اساتذہ کے لئے حجرے ،آٹاکی چکی کے لئے ایک بڑاہال وغیرہ تیار ہوئے ۔

احا طۂ مطبخ

اس میں مطبخ کے اجناس کے لئے ایک کوٹھا،ایک مطبخ کا دفتر، دس کمرے طلبہ کے قیام کیلئے ہیں ، اورایک سوختہ کا بڑا گودام ہے ،پہلے مدرسہ میں مطبخ نہ تھا لیکن جب گرانی بڑھی اورطلبہ کو تکلیف زیادہ ہونے لگی تو خیال ہوا کہ طلبہ کے طعام کیلئے خاص نظم ہونا چاہیے اس لئے ۱۳۳۷ھ میں توکلاًعلی اللہ دارالطلبہ کے بیرونی حصہ میںمطبخ جاری کیاگیامگر چونکہ یہ جگہ ناموزوں ثابت ہوئی اس لئے ۱۳۳۷ھ میں چارسوگز زمین خرید کرکھانے کیلئے مستقل عمارت بنادی گئی جوتقریباً سات ماہ میں مکمل ہوئی ،۱۳۳۸ھ میں یہاں کھانا تیار ہونا شروع ہوا۔پھر۱۳۵۷ھ میں مطبخ کے عقب کی افتادہ زمین خریدکر شامل مطبخ کی گئی ۔یہ عمارت دومنزلہ ہے اوپرکے حصہ میں متعدد کمرے ہیں جن میں طلباکاقیام رہتا ہے نیچے کے حصہ میں مختلف اجناس کا ذخیرہ رکھنے کیلئے بڑے بڑے گودام بنے ہوئے ہیں ۔
۱۳۳۸ھ میں جب یہ مطبخ قائم ہوا اس وقت ایک سو چھتیس ( ۱۳۶)طلباکویومیہ کھانا دیا جاتا تھا جن کی مجموعی خوراک کا ماہانہ خرچ چھ سو اسی (۰ ۸ ۶ ) ر و پیہ تھا۔

دارجد ید(لب حوض)

یہ عمارت دارالطلبہ کے شمال میں مسجد کلثومیہ سے متصل ہے اس میں چھوٹے بڑے سات کمرے ہیں جن میں تیس سے زیادہ طلبہ کی گنجائش ہے ،آج کل درجہ تجوید دوم بھی اسی جگہ پر ہے جس میں ایک قاری صاحب مصروف تعلیم رہتے ہیں اس کی خریداری ۱۳۴۳ھ کو حضرت مولانا سہارنپوریؒ کے دورمیں ہوئی ۔
یہ عمارت بہت بوسیدہ ہوچکی ہے،اس لئے ازسرنوبنانے کی ضرورت ہے،نئی عمارت کا نقشہ بھی تیارہوچکاہے ،جس کے مطابق ’’دارالسلام‘‘کے نام سے موسوم ایک طویل وعریض عمارت ان شاء اللہ جلدہی تیارہوگی۔
۱۳۵۱ھ میں مسجدکلثومیہ کاحوض تیارہواتھا،امسال ۱۴۳۱ھ میں حوض کے وسط میں دولاکھ لیٹرپانی کی ایک بڑی ٹنکی بھی تعمیرہورہی ہے،جس سے پانی کی دشواریوں سے راحت اورتازہ پانی پی کرطلبۂ عزیزفرحت محسوس کریں گے۔ٹنکی تقریباً تیارہوچکی ہے،البتہ پائپ لائن وغیرہ کاکام جاری ہے۔
چونکہ مظاہرعلوم میں شروع ہی سے اس پہلوپر خاص توجہ دی جاتی رہی ہے کہ اکابرکی تعمیرکردہ کسی یادگارکوکلی طورپرختم نہ کیاجائے البتہ اس میں مضبوطی اورخوبصورتی کے لئے جوبھی جدیدطریقے بہترثابت ہوسکیں کئے جائیں،اسی لئے سابقہ حوض جس کی جگہ پانی کی ٹنکی تعمیرہوئی ہے بالکلیہ ختم نہ کرکے اس میں حوض کامنصوبہ بھی زیرغورہے ۔

دارالتجوید

یہ دومنزلہ عمارت دارالطلبہ قدیم اور مطبخ کے درمیان میں واقع ہے اس کے دونوں جانب پختہ سڑک ہے،یہ عمارت حضرت مولاناعبد اللطیف صاحب علیہ الرحمہ کے دورِ نظامت میں ۱۳۵۶ھ؁ میں اس کی تعمیر ہوئی یہ دومنزلہ عمارت ابتداء سے ہی شعبۂ تجوید وقراء ت کے لئے مخصوص رہی ہے پہلی منزل میں قاری سید محمد ابراہیم سہارنپوری ؒاور دوسری منزل پرقاری محمد سلیمان دیوبندیؒ طلبہ کو قراء ت وتجوید کی مشق کرایا کرتے تھے ۔(ہردوقراء کے تفصیلی حالات کیلئے ’’صدرالقراء‘‘پرکلک کریں)

قاری محمد سلیمانؒ کی وفات کے بعد قاری سید محمد ابراہیمؒ اوپرکی منزل میں منتقل کردئے گئے اور نیچے کی منزل میں محکمہ ڈاک وتارکی جانب سے ایک ڈاک خانہ ’’ڈاک خانہ مظاہرعلوم‘‘کے نام سے کھول دیا گیا دارالطلبہ قدیم،مطبخ مدرسہ ارو دارالتجوید یہ تینوں قریب ہی قریب ہیں۔

شاخ خلیلیہ

یہ وسیع عمارت مدرسہ کی باقی عمارتوں سے فاصلہ پرشہر کے جنوبی حصہ میں واقع ہے یہ ۱۳۴۸ھ؁ مطابق ۱۹۲۸ء؁ میں جناب رائو عبد العزیز نے مدرسہ مظاہرعلوم سہارنپور کو وقف فرمائی تھی۔
حضرت مولاناعبداللطیفؒکے دورنظامت سے یہاں درجۂ قرآن شریف حفظ وناظرہ اور عربی کی ابتدائی تعلیم ہوتی ہے طلبا کی ایک بڑی تعداد بھی یہاں رہتی ہے۔
یہ وسیع عمارت سات درسگاہوں اور پندرہ کمروں پرمشتمل ہے اس کے ساتھ ایک بڑا صحن اور احاطہ بھی ہے اس عمارت کیلئے مستقل ایک مسجد ہے جو ’’مسجد خلیلیہ‘‘ کے نام سے متعارف ہے، طلبہ کی کثرت کی وجہ سے اب یہ مسجد ناکافی ہوگئی ہے۔
یہ عمارت’’شاخ مدرسہ خلیلیہ مظاہرعلوم ‘‘کے نام سے مشہور ہے اور اسٹیشن سے آتے ہوئے گھنٹہ گھر کے قریب واقع ہے۔
چونکہ یہ عمارت محل وقوع کے اعتبار سے اپنے اندر کافی نزاکت رکھتی ہے اس لئے یہاں مختصر تعدادمیں طلباکو رکھا جاتا ہے اور اسی بناء پر اس احاطہ کے ناظم ونگراں مخصوص طورپرمتعین کئے جاتے ہیں تاکہ طلباکی دینی واخلاقی تربیت صحیح طورپرہوسکے۔

مہمان خانہ قدیم

دفترمدرسہ قدیم کے عقب میں ایک افتادہ زمین اکابرمظاہرنے ۲۵/مارچ ۱۹۷۸ء کو خریدی تھی،جس پر۱۹/شوال المکرم ۱۳۹۹ھ مطابق ۱۲/ستمبر۱۹۷۹ء چہار شنبہ کو ۹/بجے صبح اس عمارت کا سنگ بنیاد حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ کے دست مبارک سے رکھا گیا، تکمیل ۱۴۰۴ھ میں فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒکے دوراہتمام میں ہوئی۔
اس عمارت کی پیشانی پرحضرت مولاناانعام الرحمن تھانویؒکے قلم سے خوبصورت اندازاورجلی حروف میں منظوم تاریخ تعمیرمرقوم ہے جودرج ذیل ہے۔

آں کتب ہست کہ گنجینۂ علم وعرفاں
بہرش ایں کاخ بناشدچوبفضل رحمں
گفت انعام سنہ ہجری تعمیربفور
ایں کتب خانہ بنابودہ چہ عمدہ ایواں
۱۴۰۴

صدردروازہ میں داخل ہوتے ہی دائیں اوربائیں جانب دیواروں پردوکتبہ موجودہیں،دائیں جانب کتبہ پرحروف کندہ ہیں وہ یہ ہیں۔
’’عالی جناب حضرت اقدس الحاج شیخ الحدیث مولانامحمدزکریاصاحب دامت برکاتہم مہاجرمدنی کے متبرک ہاتھاوں سے ۱۹/شوال المکرم ۱۳۹۹ھ مطابق ۱۲/ستمبر۱۹۷۹ء یوم چہار شنبہ کو ۹/بجے صبح مدرسہ مظاہرعلوم سہارنپورکی اس عمارت کاسنگ بنیادرکھاگیا۔‘‘
بائیں جانب دیوارپرتاریخ تعمیرپرمشتمل یہ اشعارحضرت مولاناانعام الرحمن تھانویؒکے قلم سے تحریرہیں،یہ کتبہ مجلس تحفظ مظاہرعلوم (وقف) سہارنپورکی جانب سے لگاہواہے۔
قطعہ تاریخ بناء عمارت ہذاتعمیرشدہ :بزمانۂ اہتمام حضرت مولانامفتی مظفرحسین صاحب ناظم مدرسہ مظاہرعلوم وقف سہارنپور

حضرت مفتی مظفرکی نظامت میں بنا
یہ کتب خانہ ومہمان خانہ عمدہ خوشنما
تھے بہم انیس سوچوراسی اورچودہ سوچار
عیسوی اورہجری بالترتیب سنہائے بنا

مدرسہ کی خوبصورت عمارتوں میں سے ہے ، مکمل طورپردومنزلہ ہے ،زیریں حصے میں ۱۵/حجرے،غسل خانے وغیرہ ہیں اوردوسری منزل پرکتب خانہ ہے جوایک خوبصورت پل کے ذریعہ قدیم کتب خانہ سے ملحق کردیاگیاہے۔

مہمان خانہ جدید

فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفر حسینؒ کے زمانۂ اہتمام میں تعمیرہونے والی خوبصورت عمارتوں میں سے ایک عمارت ’’مہمان خانہ جدید‘‘بھی ہے ۔۱۴/جنوری ۱۹۷۵ء کوجناب شیخ رضوان الحق وغیرہ سے آراضی خریدی گئی تھی ۔
اس عمارت کا سنگ بنیاد۱۹۹۷ء میں فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ،حضرت مولانامفتی مہربان علی بڑوتی ؒاورمظاہرعلوم کے دیگراساتذہ ٔکرام نے رکھا تھا۔حضرت فقیہ الاسلام ہی کے دوراہتمام میں ۱۹۹۸ء میںیہ عمارت مکمل ہوگئی تھی۔
یہ عمارت قدیم مہمان خانہ سے بالکل متصل ہے،زیریں حصہ میں مہمانان کرام کے لئے تین کشادہ حجرے ہیں،بالائی منزل طلبہ واساتذہ کیلئے ’’دارالمطالعہ‘‘کی غرض سے تعمیرہوئی ہے جو ایک بڑے ہال پرمشتمل ہے ،فی الحال یہاں مظاہرعلوم کا’’مکتب خصوصی‘‘قائم ہے جس میں سینکڑوں بچے حفظ وناظرہ اوردینیات کی تعلیم پارہے ہیں ۔
شوال اورذی قعدہ میں یہ ہال عازمین حج کی تعلیم وتربیت اورٹریننگ کے لئے بھی استعمال ہوتاہے۔یہ دونوں منزلیں ۱۹۹۸ء میںتیارہوگئی تھیں۔اس عمارت پرجوکتبہ موجودہے اس پردرج ذیل حروف کندہ ہیں۔

تواریخ تعمیردارالمطالعہ ومہمان خانۂ نو

بناء شد: بنظامت فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسین دامت برکاتہم
بسعی: مولانامحمدیعقوب صاحب ناظم شعبۂ تنظیم وترقی

ہوئی یہ عمدہ منزل بالاوزیرکی تعمیر
پئے مطالعہ واضیاف خوب وباتوقیر
لکھابناکادونوں کی انعام نے مسیحی سنہ
زہے بدہ دارالمطالعہ ومہمان خانہ نوتعمیر
۱۹۹۸ء
انعام کردہ بہرسال ہجری تعمیرمصرع ایں افزوں
بودہ بنادارالمطالعہ ومہمان خانہ نوموزوں
از:مولاناانعام تھانوی،مظاہرعلوم (وقف )سہارنپور

کتب خانہ (لائبریری)

۱۲۸۲ھ؁ میں مظاہرعلوم میں کتب خانہ قائم ہوچکا تھا جو محدوداور مختصر تھا مگر بحمد للہ اب یہ کتاب خانہ چارطویل وعریض ہال پر مشتمل ہے جس میں عربی ،فارسی ،اردو ،انگریزی ،ہندی ،تامل ،گجراتی،بنگلہ،پنجابی،تلگو،جرمنی،فرانسیسی ،پشتو، برمی،ترکی وغیرہ زبانوں کی تین لاکھ سے زائدکتابیں ہیں اس کتب خانہ کا اصل سرمایہ اس کا عربی ذخیرہ ہے جو انتہائی اہم اور وقیع کتابوں پرمشتمل ہے نیز چودہ سوپچاس کتابیں مخطوطات اور قلمی ہیں متعدد کتابیں ایسی ہیں جن کی تحریر وکتابت کوپانچ سو سال سے زائد گزرچکے ہیں مگر ان کی کتابت کی پاکیزگی اور خوبصورتی اسی طرح باقی ہے۔

بہت سی کتابیں نوادرات اور مخطوطات میں ایسی ہیں جو مغل بادشاہوں کے ذاتی کتب خانوں میں رہ چکیں اور ان پر ان کے نام کی خصوصی مہرلگی ہوئی ہے۔

ایشیا کے عظیم الشان دینی وعلمی کتب خانوں میں مظاہرعلوم سہارنپور کا کتب خانہ بھی ایک ممتاز مقام رکھتا ہے تحقیق وریسرچ کرنے والے کثرت سے یہاں آتے رہتے ہیں اور اپنی دینی وعلمی پیاس بجھاتے ہیں۔

دارالحدیث قدیم

۲۳/ذی الحجہ ۱۳۳۴ھ؁ مطابق ۲۳/اکتوبر ۱۹۱۶ء؁ یوم یکشنبہ کو اس دارالحدیث قدیم کا افتتاح ہوا سب سے پہلے شعبۂ تجوید کے طلبانے مصری لب ولہجہ میں قرآن پاک کی تلاوت کی اس کے بعد حضرت مولانا خلیل احمد نوراللہ مرقدہ نے ایک بسیط تقریر فرماکر ترمذی شریف شروع کرائی ۔
ہندوستان کے نامور علمائے دین اکابرومشائخ اور معززین شہر اس افتتاح تقریب میں شامل تھے ۔عالی جناب الحاج شیخ رشید احمد سابق سرپرست مدرسہ نے اس موقع پرخصوصی دعوت کا اہتمام کیا۔
حضرت اقدس مولانا خلیل احمد نوراللہ مرقدہ،حضرت مولاناعبداللطیف پورقاضویؒ، حضرت مولانا محمد زکریا ؒ،حضرت مولانا اسعد اللہ نوراللہ مرقدہ ،حضرت مولانا عبد الرحمن کاملپوریؒ ،حضرت مولانا قاری سعید احمد اجراڑوی ؒنے یہاں ایک طویل عرصہ تک صحاح ستہ کا درس دیا اور سینکڑوں طلبانے یہاں رہکر ان حضرات سے شرف تلمذحاصل کیا ۔

دارالحدیث دارالطلبہ جدید

اس وسیع اور کشادہ دارالحدیث کا سنگ بنیاد ۱۹/جمادی الثانی ۱۳۸۵ھ؁ مطابق ۵/اکتوبر ۱۹۶۵ء؁ جمعہ کے دن بعد نماز عصر رکھا گیا حضرت اقدس شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب نوراللہ مرقدہ کی ہمرکابی میں بہت سے اکابرومشائخ اس موقع پر موجود تھے سب نے اپنے مبارک ہاتھوں سے ایک ایک اینٹ رکھی اس دارالحدیث کی ہرچہار جانب دومنزلہ درسگاہیں اور برآمدے بنائے گئے ہیں تاکہ جگہ کی تنگی نہ ہو اور زیادہ سے زیادہ وسعت اورپھیلائو ہو۲۵/شوال ۱۳۸۸ھ؁ میں یہ تعمیر مکمل ہوئی اور افتتاحی تقریب کے موقعہ پر حضرت مولانا انعام الحسن نوراللہ مرقدہ نے طویل دعاء کرائی اب قدیم دارالحدیث کی طرح اس جدید دارالحدیث میں بھی ہرسال حدیث کے اسباق پڑھائے جاتے ہیں ۔یہ دارالحدیث دومنزلہ ہے۔

محمد منزل

دارالطلبہ قدیم سے متصل صدردروازہ میں داخل ہونے کے فوراًبعدبائیں جانب جوپرشکوہ چارمنزلہ عمارت ہے اس کی زیریں دومنزلیں حضرت مولانا خلیل احمد ؒ کے دوراہتمام میں تعمیر ہوئیں اور بالائی دومنزلیں حضرت مولانا محمد سعیدی حفظہ اللہ کے دورمیں تعمیر ہوئیں۔
۱۳۳۷ھ میں سب سے پہلی بارمطبخ کے طورپریہی عمارت استعمال ہوئی تھی،دھواں وغیرہ اوپردارالحدیث تک پہنچتاتھاجس سے طلبہ اوراساتذہ کوپریشانی ہوتی تھی اسی لئے مطبخ کی مستقل عمارت تیارہوئی اورکھانے بکانے کاپورانظام مطبخ منتقل ہوگیا۔پہلے اس عمارت کو’’بہل خانہ‘‘ کانام دیاجاتاتھالیکن جدیدوپرشکوہ تعمیرات،شکست وریخت اوربلندوبالامینار کے بعدیہ عمارت ’’محمدمنزل‘‘سے مشہورہوگئی۔
زیریں حصہ میں دوکشادہ کمرے تھے جن کوجدیدطرزتعمیراورجدیدترین سہولتوں سے مرصع کرکے خصوصی مہمانوں کے لئے مختص کردیاگیا۔اس سے اوپرپہلی منزل کے اندرونی حصہ میں ایک بڑاکمرہ تھاجس کودومنزلہ کردیاگیاہے۔
اس عمارت میں ۱۰/کشادہ،ہوادارحجرے تعمیرہوئے ہیں۔

لطیف ہال واسعداللہ منزل

دارالطلبہ قدیم کے اندرون جنوب میں پہلی منزل جو ایک بڑے ہال پرمشتمل ہے حضرت مولاناشاہ عبداللطیفؒ کی طرف منسوب کرتے ہوئے ’’لطیف ہال‘‘اورتیسری منزل مناظراسلام حضرت مولانامحمداسعداللہؒکی طرف منسوب کرتے ہوئے ’’اسعداللہ منزل‘‘کے نام پر؎؎دومنزلیں فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒکے دوراہتمام میں تعمیرہوئیں۔
اسعداللہ منزل میں پانچ کشادہ حجرے اوران کے سامنے برآمدہ ہے،یہاں حضرات مدرسین مدرسہ قیام کرتے ہیں۔۱۸/ربیع الاول ۱۴۱۶ھ کواس کی تعمیرکاآغازہوااورایک سال کے بعد۱۸/ربیع الاول ۱۴۱۷ھ کویہ دونوں منزلیں پایۂ تکمیل کوپہنچیں۔

رواق مظفر

فقیہ الاسلام حضر ت مفتی مظفر حسینؒ کے دور اہتمام میں ۱۴۱۵ھ کو مبلغ سترہ لاکھ روپئے (بیع نامہ کے علاوہ ) میںقطعۂ آراضی خرید کیا گیا تھااس آراضی پرفقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسین ؒکے دست مبارک سے مورخہ ۸/صفرالمظفر ۱۴۲۰ھ مطابق ۲۴/مئی ۱۹۹۹ء کوسنگ بنیادرکھاگیااورتعمیرشروع ہوکر تین منزلیںہی مکمل ہوئی تھیں کہ ۲۸/رمضان ۱۴۲۴ھ کو حضرت فقیہ الاسلامؒ کاانتقال ہوگیاتوآپؒ کے خلیفہ وجانشین حضرت مولانامحمدسعیدی مدظلہ نے دیگرتشنۂ تکمیل امورکی طرح اس عمارت کو بھی تکمیل تک پہنچانے کاعزم فرمایااورچوتھی منزل کی تعمیروتکمیل نیزشانداروپرشکوہ چارمنزلہ صدرگیٹ وغیرہ تعمیرکرایا۔تادم تحریرچوتھی منزل کے اوپرخوبصورت اورکشادہ گنبدزیرتعمیرہے۔

دفتر مدرسہ قدیم

مدرسہ کی عمارتوں میں سب سے قدیم عمارت ۱۲۹۱ھ مطابق ۱۸۷۴ء میں اس عمارت کا سنگ بنیاد میں رکھا گیا ۱۲۹۲ھ میں تکمیل ہوئی۔

مسجد مدرسہ قدیم

۱۲۹۳ھ مطابق ۱۸۷۶ء میں یہ مسجد مدرسہ قدیم کے نام سے مشہور ہے لیکن اب اس مسجدکی عظمت کے باعث مسجد اولیا ء نام تجویز ہوا ۔

کتب خانہ

۱۲۸۲ھ میں مدرسہ کا کتب خانہ ہوچکا تھا اس عظیم کتب خانہ میں مختلف علوم وفنون اور زبانوں کی تین لاکھ سے زائد کتابیں موجود ہیں۔

نوادرات

مختلف علوم وفنون میں چودہ سو پچاس مخطوطات اورنوادرات بحمد للہ موجود ہیں۔

دارالطلبہ قدیم

۱۳۲۷ھ مطابق ۱۹۰۹ء کو ایک ہزارگز زمین خرید کر دومنزلہ خوش نما عمارت کی تکمیل محدث کبیر حضرت مولانا خلیل احمد ؒ کے دورمسعود میں ہوئی۔
ذی قعدہ ۱۴۲۸ھ مطابق نومبر۱۹۱۰ء کو اس عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا ۔تاریخی دارالحدیث ،کشادہ درسگاہیں، مسجد کلثومیہ، انجمن ہدایت الرشید وغیرہ اسی عمارت میں واقع ہیں۔

ہال

۱۳۹۷ھ اس ہال کی تعمیر فخر المحدثین حضرت مولانا خلیل احمدؒ کے دور اہتمام میں ہوئی ۔

مسجد کلثومیہ

۱۳۳۱ھ مطابق۱۹۱۳ء میں اس مسجد کی تعمیل شروع ہوئی اور ۱۷/ربیع الاول ۱۳۳۲ھ نماز جمعہ سے اس مسجد کا افتتاح ہوا۔

مطبخ

۱۳۳۷ھ میں مدرسہ کی جانب سے باقاعدہ دونوں وقت طلبہ عزیز کے کھانے کا انتظام ہوا۔چنانچہ مستقل عمارت کے لئے ۱۳۳۷ھ میں چار سو گز زمین خرید کر دومنزلہ عمارت کی تعمیر مکمل ہوئی۔

خلیلیہ شاخ

شہر کے جنوبی حصہ میں گھنٹہ گھر کے قریب واقع یہ عمارت ۱۳۴۸ھ مطابق ۱۹۲۸ء کو جناب رائو عبد العزیز ؒ نے مدرسہ مظاہر علوم کو وقف فرمائی تھی۔یہاں درجہ قرآن شریف ،حفظ وناظرہ اور عربی وفارسی کی ابتدائی تعلیم ہوتی ہے۔

دارالطلبہ جدید

۱۳۴۸ھ مطابق ۱۹۲۸ء کو دارالطلبہ جدید بنانے کے لئے ایک طویل وعریض زمین خریدی گئی ۱۲/محرم ۱۳۵۵ھ یکم شنبہ کو دوپہر کے وقت مسجد کے سنگ بنیاد سے عظیم تعمیرات کا سلسلہ شروع ہوا اور کم وبیش ایک سال میں یہ عمارت پایۂ تکمیل کو پہونچی

دارالتجوید

۱۳۵۶ھ میں اس دومنزلہ عمارت کی تعمیر ہوئی زیریں حصہ میں مدرسہ کا پوسٹ آفس قائم ہے ۔

لطیف ہال

فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین ؒ کے دور اہتمام میں ۱۸/ربیع الاول ۱۴۱۶ھ کواس عمارت کی تعمیر کاآغاز ہوااور ۱۸/ربیع الاول ۱۴۱۷ھ میں پایۂ تکمیل کو پہونچی۔

اسعد اللہ منزل

حضرت مولانا محمد اسعد اللہ کے نام نامی اسم گرامی کی طرف مسنوب یہ منزل فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین ؒ کے دور اہتمام میں ۱۴۱۶ھ کو اس منزل کی تعمیر ہوئی ۔

دارالحدیث

۲۳/ذی الحجہ ۱۴۳۴ھ مطابق ۲۳/اکتوبر ۱۹۱۶ء یک شنبہ صبح نو بجے اس عظیم الشان دارالحدیث کا افتتاح ہوا اور حضرت مولانا خلیل احمدؒ نے سب سے پہلے ترمذی شریف طلبۂ دورۂ حدیث شریف کو شروع کرائی۔طلبہ عزیز کی تعداد میں اضافہ اور جگہ کی تنگی کی وجہ سے فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسینؒ کے دور اہتمام میں اس دارالحدیث کی ازسر نو تعمیر وتوسیع ہوئی۔

دارالتفسیر

فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفر حسینؒ کے دور اہتمام میں دارالتفسیر کی پرشکوہ کشادہ عمارت تعمیر ہوئی۔

محمد منزل

چار منزلہ خوش نماعمارت کی زیریں دومنزلیں حضرت مولانا خلیل احمد ؒ کے دوراہتمام میں تعمیر ہوئیں اور بالائی دومنزلیں حضرت مولانا محمد سعیدی حفظہ اللہ کے دورمیں تعمیر ہوئیں۔

رواق مظفر

فقیہ الاسلام حضر ت مفتی مظفر حسینؒ کے دور اہتمام میں ۱۴۱۵ھ کو مبلغ سترہ لاکھ روپئے (بیع نامہ کے علاوہ ) میںقطعۂ آراضی خرید کیا گیا اور تین منزلہ عمارت کی تعمیر ہوئی۔

مہمان خانہ

فقیہ الاسلام مفتی مظفرحسینؒ کے دور اہتمام میں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ کے دست مبارک سے ۹/شوال ۱۳۹۹ھ مطابق ۱۲/ستمبر ۱۹۷۹ء چہار شنبہ کو سنگ بنیاد رکھا گیا۔
فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفر حسینؒ کے زمانۂ اہتمام میں ۱۴۰۴ھ میں اس عمارت کی تکمیل ہوئی ۔بالائی حصہ میں مدرسہ کا جدید کتب خانہ واقع ہے اور زیریں حصہ میں مہمان خانہ واقع ہے ۔