مساجد
مساجد
مظاہرعلوم سہارنپور چونکہ مختلف عمارتوں،ہوسٹلوں اوراِحاطوں میں واقع ہے، اس لئے موقع کی مناسبت سے مساجدکی ضرورت بھی مسلم تھی ،اکابرمظاہر نے اس سلسلہ میں اپنی بالغ نظری اوردُوراندیشی کاثبوت پیش فرمایااوراہم عمارتوں کے ساتھ باقاعدہ مساجدبھی قائم فرمائیں چنانچہ ذیل میں صرف اُن مساجدکاتذکرہ کیاجارہاہے جومدرسہ کے زیرانتظام ہیں اورجن کے اخراجات بھی مدرسہ ہی برداشت کرتا ہے ۔
مسجداولیاء
۱۲۹۳ھ مطابق ۱۸۷۶ء میں یہ مسجدتعمیر ہوئی یہ’’ مسجد مدرسہ قدیم‘‘کے نام سے مشہور ہے حضرت مولانا احمد علی ؒمحدث سہارنپوری ومحشیٔ بخاری نے اس مسجدمیں ایک عرصہ تک بخاری شریف کا درس دیا اس مسجد کی ایک اہم اور نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ فخرالمحدثین حضرت مولانا خلیل احمد مہاجرمدنیؒ متوفی ۱۳۴۶ھ اورحضرت مولانا محمد زکریا مہاجرمدنی ؒ نے کم وبیش سوسال تک یہاں عبادت وریاضت اور محنت و مجاہدہ فرمایا ۔
اس مسجد اور مدرسہ کی دیکھ ریکھ اور اس کے سلسلہ میں ہرممکن امداد کے لئے حافظ فضل حق صاحبؒ ہمیشہ پیش پیش رہے اور تاحیات مدرسہ کے ساتھ ساتھ مسجد کے بھی خزانچی بھی رہے۔
اس مسجد کی تکمیل ۱۲۹۳ھ میں ہوئی ،شروع شروع میں یہ مسجد اندر سے بالکل بند تھی ،کھڑکی،جنگلہ ،روشن دان وغیرہ نہیں تھاجس کے باعث گرمیوں میں نمازیوں کو کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا،چنانچہ ۱۳۵۱ھ میں جناب حافظ نور احمد صاحبؒ پدّم والے رئیس محلہ چوب فروشان سہارنپور نے جانب مغرب تین کھڑکیاں ہوا اور روشنی کیلئے کھلواکر اس میں آہنی جنگلے لگواکر مستحکم کیا ۔
۱۳۹۳ھ میں وضو وغیرہ کے لئے پانی کی دشواریوں کے پیش نظر ایک کنواں بھی بنوایا گیا جس کو کچھ عرصہ کے بعد اوپر سے چھت بناکر بند کردیا گیا اور اس میں پانی کا پائپ ڈالدیا گیا،تاکہ کسی قسم کا کوئی خطرہ نہ ہونے پائے۔
حضرت مولانا محمد اسعد اللہ ؒ کے دور نظامت میں۱۳۸۴ھ میں مسجد کے سامنے برآمدہ کی تعمیر ہوئی جس سے نمازیوں کو بہت آرام ملا ۔
محدث کبیر حضرت مولانا خلیل احمد صاحبؒمظا ہر علوم کے استاذ بننے کے بعد ایک عرصہ تک اس مسجد میں محراب سناتے رہے پھر جب دارالطلبہ قدیم کی مسجد کلثومیہ تعمیر ہوگئی تو وہاں بھی دوسال تک محراب سنانے کا معمول رہا اس کے بعد آپ کے قویٰ جواب دے گئے ، پیرانہ سالی، ضعف ونقاہت بڑھ گیا تومحراب سنانے کے بجائے محراب سننے کا معمول بنا لیا۔
فقیہ اعظم حضرت مولانا مفتی سعید احمدصاحبؒ اجراڑوی کو حضرت مولانا خلیل احمد صاحبؒ نے حکم دیا کہ وہ مسجد مدرسہ قدیم میں امامت کا فریضہ انجام دیں ،چنانچہ امتثال امر میں حضرت مفتی اعظم ؒ تقریباً تیس سال تک اس مسجد میں امامت اور خطابت کے فرائض بلا تنخواہ حسبۃللہ انجام دیتے رہے۔
حضرت مولانا خلیل احمد صاحب محدث سہارنپوریؒ،شیخ الاسلام حضرت مولانا سید عبد اللطیف پورقاضویؒ، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحبؒ ، حضرت مولانا مفتی سعید احمد اجراڑو ی ؒکے علاوہ دیگر اکابر علماء نے اس مسجد میں عبادت وریاضت فرماکر اس مسجد کی عظمتوں میں چارچاند لگائے تھے۔
ان کے علاوہ امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ،قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ،شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ،حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ،رئیس التبلیغ حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ ،شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ ،حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب دیوبندیؒ شیخ المشائخ حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ اور دیگر بابر کت ہستیوں نے صلوۃ وعبادت کے ذریعہ اس مسجد کو ذکر وفکر کی تازگی اور ایمان ویقین کی حلاوت سے فیضیاب فرمایا ہے۔
حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ، حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ اور حضرت مولانا محمد یوسف صاحب کاندھلویؒ کے انتقال کے بعد شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحبؒ کی ذات گرامی مرجع خلائق بن گئی تھی ، ان بزرگوں کے مریدین ومتعلقین کا آپؒ کی جانب رجوع شروع ہوا،اس وقت تک حضرت شیخ الحدیثؒ نے سہارنپور میں اعتکاف نہیں شروع فرمایا تھا ، واردین مسجد مدرسہ قدیم میں اپنے معمولات واوراد میں مشغول رہتے تھے اور حضرت شیخ الحدیثؒاپنی قیام گاہ پر اپنے معمولات میں مصروف رہتے تھے لیکن واردین کی کثرت کے پیش نظر حضرت شیخ الحدیثؒ کو اپنے اس معمول میں تبدیلی کر نی پڑی اور رمضان ۱۳۸۴ھ(م۱۹۲۵ء)سے اعتکاف کا ارادہ فرمالیا ،حضرت شیخ الحدیث ؒکا سہا رنپورمیں یہ سب سے پہلااعتکاف تھا جوآپ نے مسجد مدرسہ قدیم میں ادا فرمایا ،نیاز مندوں کے لئے یہ اطلاع پیام جانفزا تھی چنانچہ دور دور سے اہل دل کھنچے چلے آئے اور اخیر عشرہ میں معتکفین کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی تھی،جگہ کی تنگی کے سبب بہت سے لوگوں کو حکماً اعتکاف سے روک دیا گیا لیکن لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہی رہا، بالآخر یہ تعداد سو سے زائد ہوگئی ، ان سب حضرات کا قیام مسجد سے متصل دفتر مدرسہ قدیم میں رہا ،اور دفتر مدرسہ میں مہمانوں کی ضیافت کا نظم وانتظام حضرت شیخ ؒ کی جانب سے ہوتا رہا۔اژدحام کے پیش نظر اگلے سال ۱۳۸۵ھ میں اعتکاف کا یہ بابرکت یہ سلسلہ دارالطلبہ جدید میں منتقل ہوگیا۔
پوری تفصیل خودحضرت شیخ الحدیث مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒ کے قلم سے آپ بیتی میں موجودہے برکۃًموضوع کی مناسبت سے ایک اقتباس نذرقارئین ہے۔
’’ بہر حال لکھ تویہ رہا تھا کہ میرے بعض دوستوں کی ترقی اس سے رک گئی۔ اس کے علاوہ ہر سال مجمع بھی بڑھنا شروع ہو گیا اس لئے رائے پور بھیجنے کا مستقل اہتمام توچھوٹ گیاکہ حضرت قدس سرہٗ کے بھی رمضان پاکستان وغیرہ میں ہو نے لگے ۔ ۱۳۸۲ھ سے حضرت رائے پوری قدس سرہٗ کے وصال کی وجہ سے مجمع میں اور اضافہ شروع ہو گیا ۔ ۱۳۸۴ھ میں تو مولانا یوسف صاحب ؒ کی معیّت کا اعتکاف چھوڑ کر ۱۵ـ، نفر سہارنپور پہنچے مگر یہاں جگہ نہیں تھی ۔ ان بیچاروں کااعتکاف بھی رہ گیا ، اللہ تعالیٰ اجر عطا فر مائے ۔ زکریا نے اس سال پورے ماہ کا اعتکاف مدرسہ قدیم کی مسجد میں کیا تھا اس وجہ سے جگہ کی اور بھی تنگی ہو گئی ۔ اس لئے ۱۳۸۵ھ سے دار الطلباء جدید کی مسجد میں رمضان گزارنا شروع کیا ۔ وہاں بھی ہر سال مجمع بڑھتا ہی چلا گیا ۔ چنانچہ اس سال ۴۰ نفر معتکف تھے اخیر میں ۲۰۰ تک مقدار پہنچ گئی ‘‘۔
فقیہ الاسلام حضرت مولانا شاہ مفتی مظفر حسین صاحبؒ جوانی سے لیکر اعذار کے پیش آجانے تک مسجد مدرسہ قدیم میں امامت فرماتے رہے، اور دارالطلبہ قدیم میں جمعہ کی نمازپڑھانے کا ایک طویل عرصہ تک معمول رہا۔
اپنے والد ماجد کی طرح فقیہ الاسلام حضرت مولانا شاہ مفتی مظفر حسین ؒ بھی حسبۃً للہ مسجد مدرسہ قدیم میں نماز پڑھا تے رہے کبھی کوئی پیسہ نہیں لیا،آپ کی اقتداء میں دیگر اعیان علم وتقویٰ کے علاوہ حضرت مولانا عبد اللطیف پورقاضویؒ ،شیخ المشائخ حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ،شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ ،شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہا جر مدنیؒ اور حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد اسعد اللہ ؒ جیسی بابرکت ہستیوں نے بارہانمازیں ادا فرمائی تھیں۔
ان تمام اکابر کے دم قدم سے اس مسجد میں طالبین کو ذکروفکر کی تازگی اور ایمان ویقین کی حلاوت ملتی رہی نیز حضرت مولانا محمد زکریامہاجرمدنیؒ نے اپنے درس حدیث کے آخری سالوں میں یہاں بخاری شریف بھی پڑھائی ۔
پہلے اس مسجد سے ملحق سہ دری میں شعبۂ قرآن مجید حفظ وناظرہ بھی تھا جہاں بڑی تعداد میں شہری اور بیرونی طلبہ قرآ ن پاک پڑھتے ہیں۔یہ درجہ ’’کتب خصوصی‘‘کے نام سے مشہورتھا۔اب طلبہ کی تعدادزیادہ ہونے کی وجہ سے یہ درجہ جدیدمہمان خانہ کی دوسری منزل پرمنتقل کردیاگیاہے۔۱۳۸۴ھ میں مناظراسلام حضرت مولانامحمداسعداللہ ؒنے اس مسجد کابرآمدہ تعمیرکرایا تھا۔
مسجد کلثومیہ
شیخ العرب والعجم حضرت مولاناخلیل احمدمہاجرمدنیؒ کے عہدمبارک میں جو پرشکوہ عمارتیں تعمیرہوکرعدم سے وجودمیں آئیں ان میں سرفہرست تودارالطلبہ قدیم ہی ہے لیکن ایک اورعمارت اسی سے متصل ہے جومسجدکلثومیہ کے نام سے موسوم ومتعارف ہے ،یہ مسجد ایک نیک دل خداترس خاتون کلثوم جہاں بیگم صاحبہ جاگیردار ریاست بھوپال کی یادگار اوران کے تعاون اوردریادلی کاعمدہ شاہکارہے ،اسی بناپر اس کا نام ’’مسجد کلثومیہ‘‘ رکھا گیا ہے ۔
حضرت مولاناخلیل احمدمہاجرمدنیؒ نے دارالطلبہ قدیم کی تعمیرکے دوران سفرحج پرجانے سے پہلے معماروں کویہ ہدایت فرمائی تھی کہ مغربی دیوارکے شمالی گوشہ میں جوحجرہ بنایاجائے (جہاں اب دارالطلبہ قدیم سے مسجدکے لئے راستہ ہے)اس کی نہ تودیوارپختہ کرنانہ ہی اس میں الماریاں بنانابلکہ اس جگہ دروازہ کی محراب رکھ دینا۔
معماروں کو حضرت قدس سرہ کے اس ارشادکی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آئی اورانہوں نے دیوارکوپختہ بنادیا،سفرحج سے واپسی پرحضرت قدس سرہ نے حجرہ کو دیکھاتو پوچھاکہ ایساکیوں کیا؟ عرض کیاکہ حضرت میں بالکل بھول گیاکیونکہ میرے ذہن میں اس ارشادکی کوئی وجہ نہیں آئی تھی۔نصیحتاًفرمایاکہ کوئی بات بلاوجہ بھی مان لیاکرتے ہیں۔
مدت کے بعداس ارشادکی وجہ اس وقت سمجھ میں آئی جب کہ پشت کی زمین والیٔ بھوپال کلثوم جہاں بیگم ؒنے خریدکرعالیشان مسجدبنوائی اوراسی حجرہ کو توڑکر دارالطلبہ قدیم سے مسجدمیں جانے کے لئے دروازہ کھولاگیا۔
اس مسجدکی زمین میں سہارنپورکے چندمخلص وباہمت حضرات کابھی حصہ ہے جنہوں نے زمین خریدکرمدرسہ کو وقف کی،اوائل محرم ۱۳۳۱ھ مطابق ۱۹۱۳ء میں اس مسجد کی تعمیر شروع ہوئی ،ایک سال سے کچھ زائدعرصہ اس کی تعمیرمیں صرف ہوا۔
۱۷؍ ربیع الاول ۱۳۳۲ھ کی مبارک گھڑی میں حکیم الامت مجددالملت حضرت مولانااشرف علی تھانویؒ،شیخ المشائخ اعلی حضرت مولاناشاہ عبدالرحیم رائے پوریؒکے علاوہ میرٹھ سے جناب حافظ فصیح الدین ؒ،جناب شیخ رشیداحمدؒاورحضرت مولاناعاشق الٰہی میرٹھیؒ بطورخاص اس افتتاحی تقریب میں شریک ہوئے۔
بلاکسی اشتہارواعلان کے شہرکے مخیرین ومعاونین کاتین ہزارسے زائدمجمع تھا، مسجدکلثومیہ اپنی کشادگی کے باوجودتنگ محسوس ہوئی تودارالطلبہ قدیم کی چھتوں اورصحن میںفرش بچھایاگیا۔
سرپرست مدرسہ حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانویؒنے نمازجمعہ پڑھائی اورنمازکے بعدغایت انشراح کے ساتھ نمازعصرتک وعظ وارشاد فرما یا۔
اس مسجد کے اندرونی حصہ میں تین اور برآمدہ میں دوصفیں ہوتی ہیں جب کہ صحن بھی وسیع اور کشادہ ہے جنوب میں ایک سہ دری اور جانب شمال ایک بڑا کمرہ ہے جس کے سامنے ایک برآمدہ بھی ہے،یہ کمرہ حضرت مولانامحمداسعداللہؒکے دوراہتمام میں تعمیرہواتھا۔
یہ مسجداپنی سادگی کے باوجودبہت ہی خوبصورت اورپرشکوہ ہے ،بعض اہل اللہ کویہاں خصوصی انوارمحسوس ہوئے ہیں، حضرت مولاناعاشق الٰہی میرٹھیؒلکھتے ہیں کہ
’’ نمازپڑھنے میں اتنی دلبستگی ہوتی تھی جس کی ماہیت بیان کرنے سے زبان عاجزہے‘‘۔(تذکرۃ الخلیل۲۱۵)
اس مسجد میں وضوکیلئے ایک حوض بھی ہے جوحضرت رائے پوریؒ کے مشورہ سے رمضان ۱۳۵۱ھ میں بنایا گیاتھا ،متعدد غسل خانے اوروضوخانے بنائے گئے تھے۔
حضرت اقدس مولاناقاری عبدالعزیزؒاستاذتجویدنیزمناظراسلام حضرت مولانا محمداسعداللہ رام پوریؒناظم مدرسہ نے طویل زمانے تک اس مسجدمیں امامت کے فرائض انجام دئے ،اسی طرح فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ نے ایک عرصہ تک عیدین کی نمازاس مسجدمیں پڑھائی ہے۔اب ناظم مدرسہ حضرت مولانا محمدسعیدی اس مسجدمیں عیدین کی نمازپڑھاتے ہیں۔
ماہ رمضان المبارک میں تراویح اور عیدین کا خصوصی اہتمام اس مسجد میں ہوتا ہے دوگانۂ عید اداکرنے کیلئے اتنا مجمع آتا ہے کہ یہ پوری عمارت بالکل ناکافی ہوجاتی ہے۔
مسجد دارالطلبہ جدید
یہ مسجدمظاہرعلوم کی تمام مساجدمیں سے کشادہ اورخوشنما ہے ،۱۲محرم ۱۳۵۵ھ کو مجمع اخیارکے ہاتھوں سالانہ جلسہ کے موقع پر اس مسجد کی بنیا د رکھی گئی، ۱۳۵۶ھ میں پہلی مرتبہ یہاں نماز عیدالاضحی اداکی گئی ،۱۳۵۹ء میں مسجد کا اندرونی حصہ اور۱۳۷۳ھ میںمسجد کا برآمدہ تعمیر ہوا، ۱۳۷۸ھ میں مسجد کی دونو ں جانب کی سہ دریاں تیار ہوئیں،۱۳۹۴ھ میں اس کے لئے ایک اوروسیع برآمدہ بنوایا گیا جس کا فرش خوشنما ٹائلوں سے بناہوا ہے۔
یہ مسجد نہایت پرسکون ہے بعض اہل کشف نے یہاں کچھ انوارات محسوس کئے ہیں جو نہ ذکرکے انوارہیں نہ ولایت کے بلکہ ان کے بیان کے مطابق وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے انوار ہیں جو کسی صحابی کے یہاںدفن ہونے یاکبھی قیام فرمانے کی بناء پر طاری ہیں۔
یہی وہ تاریخی مسجد ہے جہاں حضرت اقدس شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒسالہاسال تک ماہ رمضان المبارک میں اعتکاف فرماتے رہے ہیں اور آپ کے ساتھ سینکڑوں کی تعداد میں علماء وصلحاء ملکی اور غیر ملکی خواص وعوام اعتکاف کرتے رہے ۔
ماہ رمضان میں معتکفین کی کثرت اورجگہ کی قلت کو دیکھتے ہوئے مرادآباد کے ایک مخلص مخیر جناب الحاج ولی الرحمن نے اس مسجد کو دومنزلہ بنواکر اس کے حسن وخوبصورتی میں مزید اضافہ کردیا۔
مسجد خلیلیہ شاخ :
یہ مسجد مسماۃ نتھونے جس کی یہ شاخ سرائے تھی ،۱۲۷۹ھ کو تعمیر کرائی، ’’مسجد بے نظیر‘‘ تاریخی نام ہے جیسا کہ حسب ذیل قطعہ سے معلوم ہوتا ہے ؎
کردن نتھو بنائے ایں مسجد
حق تعالیٰ چہ ہمتش بخشید
بربناء چوں خرد نظر انداخت
مسجد بے نظیر سالش دید
۱۲۷۹ھ
مسجد کا غربی حصہ حضرت مولانا محمداسعد اللہ کے دورِ نظامت میں تعمیر ہواتھا ۔
مسجد کٹہرہ :
جناب مولوی عبدالقیوم صاحب ساکن بریلی(یوپی)نے ۱۹۲۷ء میں ایک قطعہ آراضی مدرسہ کووقف فرمایاتھا،اس آراضی کے ایک حصہ میں مسجدقائم ہے باقی حصہ میں انقلاب ۱۹۴۷ء سے پہلے مسجد کے قریب مدرسہ کا ایک دارالطلبہ تھا جس میں طلبہ کی ایک بڑی جمعیت کا قیام تھا لیکن انقلاب کے بعد سے بوجہ مجبوری یہ دارالطلبہ کرایہ پردیدیا گیا البتہ مسجد اب بھی مدرسہ سے متعلق ہے ۔
ایک زمانہ تک اس مسجدمیں پنجوقتہ جماعت کیلئے چند طلبہ کومخصوص وظیفہ دے کر بھیجاجاتا رہااب بھی امامت اوردیگربنیادی ضروریات کانظم مدرسہ ہی کرتاہے ۔