نظمائے مظاہرعلوم
(۲) حضرت مولانا خلیل احمدانبہٹوی ؒ
محدث کبیرحضرت مولاناخلیل احمدمحدث سہارنپوریؒ اوائل صفر۱۳۶۹ھ مطابق دسمبر۱۸۵۲ء کواپنے نانیہال نانوتہ ضلع سہارنپورمیں پیداہوئے ،ظہیرالدین اورخلیل احمددونام تجویزہوئے،دوسرے نام سے عالم میں مشہورہوئے۔
عمرکے پانچویں سال آپ ؒکے ناناجان استاذالکل حضرت مولانامملوک العلی نانوتویؒ نے آپ کو بسم اللہ پڑھائی اس طرح آپؒ کی تعلیم اورتعلم کاطویل سلسلہ چلا،ابتدائی تعلیم انبہٹہ اورنانوتہ میں حاصل کی پھرحصول علم کی سچی تڑپ نے چچاجان حضرت مولاناانصارعلیؒ کی رفاقت میں گوالیارپہنچادیا،گوالیارمیں مختصرعرصہ قیام کے بعدپھروطن آگئے اورقصبہ کے مشہور استاذمولوی سخاوت ؒکے پاس کافیہ تک کی تعلیم حاصل کی ۔چھ ماہ کے لئے آپ نے ایک انگریزی اسکول میں بھی داخلہ لے کرانگریزی پڑھی اوراپنی خوش استعدادی وذہانت کے باعث چھ ماہ میں اس قدرتعلیم حاصل کرلی کہ دوسال کے پرانے طلبہ بھی پیچھے ہوگئے،آپ کاماسٹرجوہندوتھاوہ بھی آپ کی لیاقت وصلاحیت کو دیکھ کرحیران وششدرتھاچنانچہ ایک بارکہہ بھی دیاکہ تم انتی جلدی انگریزی گرامرکی ترکیب کرلیتے ہوکہ میں بھی قادرنہیں اس کی کیاوجہ ہے ؟حضرت سہارنپوریؒکے چچازادبھائی مولاناصدیق احمدبھی اسی اسکول میں زیرتعلیم تھے انہوں نے کہاکہ ہم نے عربی زبان کی ایک کتاب شرح جامی پڑھ رکھی ہے جونحوی ترکیب کی بہترین کتاب ہے اس لئے ترکیب نحوی کسی بھی زبان میں ہومشکل نہیں ہے ۔حضرت مولانااپنی ذہانت اورفطانت کی وجہ سے انگریزی پڑھ تو رہے تھے لیکن طبیعت اچاٹ اورکبیدہ رہتی تھی ،اسی زمانہ میں آپ کویہ مسرت افزاخبرملی کہ دیوبندمیں ایک عربی مدرسہ قائم ہواہے جس کے صدرمدرس آپؒ کے ماموں حضرت مولانامحمد یعقوب نانوتویؒ ہیں چنانچہ آپ نے والدین سے اجازت مانگی جومل گئی ،دیوبندپہنچے توآپ کے ماموں نے آپ کوکافیہ کی جماعت میں داخل فرمادیالیکن دیوبندمیں بھی آپ کادل نہ لگا،اتفاق سے اسی زمانہ میں سہارنپورمیں مدرسہ مظاہرعلوم قائم ہوایہاں کے پہلے صدرمدرس بھی حضرت سہارنپوریؒکے قریبی ماموں حضرت مولانامحمدمظہرنانوتویؒتھے چنانچہ آپ دیوبندسے سہارنپورتشریف لے آئے اوربقول حضرت اقدسؒ کے کہ ’’جس وقت یہاں پہنچاہوں بس اس طرح مانوس ہوگیاکہ گویاہمیشہ سے یہیں رہتاتھا‘‘
حضرت مولانامحمدمظہرنانوتویؒ،حضرت مولاناعبدالقیوم بڈھانویؒ،حضرت شیخ احمددحلانؒ اورحضرت شاہ عبدالغنی مجددیؒ جیسی برگزیدہ شخصیات سے آپ کو اجازت حدیث حاصل تھی۔
فراغت کے بعدہی آپؒاپنی مادرعلمی میں معین مدرس بنادئے گئے لیکن اس درمیان عربیت میں مہارت اورکمال پیداکرنے کیلئے لاہورحضرت مولانافیض الحسنؒ ادیب سہارنپوری کے پاس پہنچ کرعلوم عربیہ وادبیہ کی تکمیل کی،پھرواپسی پرحضرت مولانامحمدیعقوبؒ نے قاموس کاترجمہ کرنے کے لئے منصوری پہاڑپربھیج دیا،وہاں چندماہ گزارکرمنگلور، بھوپال،بھاول پور،بریلی اوردارالعلوم دیوبندمیں تدریس کاموقع ملااورآخرکارحضرت مولانارشیداحمدگنگوہیؒ کے حکم پر۱۳۱۴ھ میں اپنی مادرعلمی مظاہرعلوم میں تشریف لے آئے اورترقیات کاتاریخی دورشروع ہوا،جس طرح آپ کومظاہرعلوم میں پے روپے ترقیات ملیں اسی طرح آپ کی ذات سے مادرعلمی کوبھی خوب ترقی ملی۔
حضرت سہارنپوریؒیہاں استاذحدیث سے شیخ الحدیث،اورصدرمدرس،سرپرست اعلیٰ اورپھرمدارالمہام بن گئے تھے، مدرسہ کی پرشکوہ عمارت دارالطلبہ قدیم حضرتؒہی کی کاوشوں،کوششوں کانتیجہ ہے جوفن تعمیرکاشاندارشاہکارہے۔
آپ کے عہدمیں مدرسہ کی مسجدکلثومیہ بھی تعمیرہوئی جوخوبصورتی اوردلآویزی میں بہت ہی عمدہ عمارت ہے،اس کے علاوہ قدیم کتب خانہ کی تعمیراورکتابوں کی فراہمی،عالم اسلام میں ادارہ کی شہرت ومقبولیت،علماء وخواص کارجوع،طلبہ کی کثرت غرض کہ ہرطرح مظاہرعلوم کوترقیات حاصل ہوئیں ۔
شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒ آپ ؒکے عزیز شاگرد،خصوصی مسترشداورخادم خاص تھے،چنانچہ ابوداؤدشریف کی معرکۃ الآراء شرح ’’بذل لمجہود‘‘ کامعتدبہ حصہ مدینہ منورہ میں لکھا،اس کی تسوید،تبییض،مراجعت کتب اورتحقیق وغیرہ کااہم کام حضرت شیخ الحدیث مولانامحمدزکریاکاندھلویؒہی سے لیتے تھے،حضرت سہارنپوریؒ کوچونکہ حب رسول بلکہ عشق رسول تھااورآپ کی دلی تمناوآروزوتھی کہ خاک طیبہ میں دفن ہونانصیب ہوجائے اس لئے باربارسفرحج فرماتے ،وہاں طویل قیام فرماتے اوربذل کی تکمیل بھی۔
دیارپاک سے جب یہاں تشریف آوری ہوتی تودیگرانتظامی امورمیں مصروف ہوجاتے ،۳/جمادی الثانی ۱۳۴۴ھ کو حضرت سہارنپوریؒنے دیارپاک روانگی کے وقت ایک مکتوب گرامی کے ذریعہ یہ حکم صادرفرمایاکہ
’’سرپرستان میں سے حضرت رائے پوریؒاورمولانااحمدصاحب کاوصال ہوگیا،مناسب ہے کہ مولاناعاشق الٰہی،وشیخ رشیداحمدومولاناعبدالقادرصاحب کو سرپرستان میں لے لیاجائے،شیخ صاحب پہلے سے مدرسہ کے خیرخواہ اورخادم ہیں ،مولاناعبدالقادرصاحب حضرت رائے پوریؒکے خلفاء میں سے ہیں اورذی رائے ہیں۔
میری غیبت میں حافظ عبداللطیف ناظم،اورمولاناعبدالرحمن صاحب صدرمدرس بنیں،حافظ صاحب کے پاس تین گھنٹے سبق رہے اورباقی وقت میںمدرسہ کاانتظام‘‘
حضرت سہارنپوریؒکے اس حکم نامہ کی روشنی میں نظام مدرسہ عملی شکل اختیارکرگیااورحضرت والاکی طرف سے متعین کردہ تنخواہیں جاری کردی گئیں۔گویامظاہرعلوم ایک عظیم ناظم ومنتظم اورجلیل القدرشخصیت کے سایۂ عطوفت سے گویامحروم ہوگیا۔
۱۵/ربیع الثانی ۱۳۶۴ھ کوآفتاب علم فضل کایہ آفتاب ماہتاب اپنی تمنااوردعاکے مطابق مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں غروب ہوگیا۔اناللّٰہ واناالیہ راجعون۔مدرسہ شرعیہ مدنیہ منورہ کے صدرمدرس مولاناشیخ طیب ؒنے نمازجنازہ پڑھائی اوربقیع میں تدفین عمل میں آئی ۔