mazahiruloom@gmail.com 9045818920

قیام

قیام مظاہر علوم سہارنپور

جب زمین پیاسی ہوتی ہے تو رب السمٰوات والارض پانی برساتاہے ،جب خشک سالی کے آثارچھاجاتے ہیں توآسمان پررحمت کی بدلیاں پھیل جاتی ہیں،یہ وہ انتظام الہیٰ ہے جوپروردگارعالم نے انسان کے جسم کی غذاکیلئے کیاہے ،وہ خداکہ اس کی محبت زمین کی مٹی کو خشک نہیں دیکھ سکتی اوروہ درخت کی ٹہنیوں کو سبزپتیوں اورسرخ پھولوں کی زیبائش سے محروم نہیں رکھتا،کیاوہ روح ِ انسان کوہلاکت وبربادی کے لئے چھوڑ دے گا؟ہرگزنہیں بلکہ رَبُّنَاالَّذِیْ اَعْطیٰ کُلَّ شَئیٍ خَلَقَہ‘ ثُمَّ ہَدٰی ،ہمارا رب وہ ہے جس نے کائنات کی ہر چیزکو اس کی خلقی ضروریات بخشیں پھر اس کے بعدان کی ہدایت کا سامان فراہم کیا۔
اسی طرح جب درخت مرجھاجاتاہے ،نیکی کی کھیتیاں سوکھ جاتی ہیں ،عدالت کا باغ ویران ہوجاتاہے اور خداکے کلمۂ حق وصداقت کا شجرٔ طیبہ بے برگ وبارنظرآنے لگتاہے تو خداروح ِ انسانی کو ہلاکت سے بچانے کے لئے موقع کے مناسب انتظام فرماتاہے ۔
جب ہندوستان میں ۱۸۵۷ء کے حوادث وقتیہ اورانقلابات زمانہ سے علمی شمعیں بجھنے لگیں،علوم نبوت کے ضیاع کا خطرہ پید اہوگیااورمحسوس کیاجانے لگاکہ اب اسلام اوراسلامیات کی بہاریں اورتسکین ِ روح وقلب کے اسباب ناپیدہوجائیں گے تو اللہ جل شانہ کی رحیم ذات کو رحم آیااوراس نے اعلاء کلمۃ اللہ،اسلامی تعلیمات اورمسلمانوں کی ذہنی وروحانی استقامت کی طرف متوجہ فرمایا،چنانچہ انہوں نے ان ناگزیر حالات میں مدارس دینیہ کاجال بجھایا۔
فقیہ العصرحضرت اقدس مولانا سعادت علی (متوفی ۱۲۸۶ھ)صاحب قدس سرہٗ کی ذات گرامی تیرہویں صدی کے علماء میں اپنے تبحر علمی اورگوناگوںمحاسن واوصاف کی بناء پر ممتاز وفائق اوریگانہ روزگارتھی علوم وفنون میں ان کو کامل دسترس اورفقہ وافتاء میں خصوصی کمال حاصل تھا ۔
حضرت سید احمد شہید (۱۲۴۶ھ)بریلوی قدس سرہٗ جیسے مجاہد جلیل سے ان کو خاص تعلق وربط تھا اوران کی جماعت کے اہم اورمخصوص لوگوں میں سے تھے ان کی ذات سے جو بے پناہ علمی فیضان ہوا وہ نہایت ہی اہم ومثالی اورہندوستان کی علمی تاریخ کا ایک شاندارباب ہے ،خود مولانا کا تعلیمی حلقہ اپنے دولت کدہ پر قائم تھا ،جس سے خلق خدا فیضیاب ہورہی تھی ایک زمانہ کے بعد مختلف حالات وشئون سے گذر کر وہ علوم وفنون کا بڑا مرکزبنا اور مظاہر علوم کے نام سے مشہورہوا جس کی دینی ومذہبی علمی عرفانی اصلاحی اورتبلیغی خدمات آج مستغنی عن التعارف ہیں۔تاریخی طورپریہ حقیقت وواقعہ ہے کہ ہندوستان کے موجودہ بنیادی اورکلیدی مراکزاوردینی مدارس کا بیشتر سلسلہ مولانا ہی کے علمی خانوادہ کے افراد سے وابستہ ہے ،یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے اکثر علماء کبائراورفضلائے عظام مولانا کے سلسلۂ تلمذمیں داخل نظر آتے ہیں جس سے مولانا کی عظمت شان اورمرجعیت کا پتہ چلتا ہے ۔(تفصیلی حالات ’کے لئے ’بانیان مظاہرعلوم‘‘ پرکلک کریں)
مظاہرعلوم کے اصل بانی حضرت مولاناسعادت علی صاحب انصاری سہارنپوری ہیںجوفقیہ شہر سے مشہورتھے ،آپ نے یکم رجب۱۲۸۳ھ مطابق ۹/نومبر ۱۸۶۶ء کواس مدرسہ کی مکتب کی صورت میںاپنے محلہ چوک بازداران کی مسجدمیںبنیادرکھی، اطراف وجوانب ،معتقدین اوراہل ثروت کواس کاعلم ہواتوبڑی فراخدلی کے ساتھ اس کی مالی امدادکیلئے ہاتھ بڑھایابالخصوص عالی جناب شیخ الٰہی بخش صاحب لال کرتی رئیس میرٹھ نے جومولاناسے گہری عقیدت رکھتے تھے، بڑی دریادلی سے اعانت فرمائی اوراس کیلئے آڑے وقت میںکام آتے رہے،قیام مدرسہ سے قبل مولاناموصوف اپنے مکان پرقدیم رواج کے مطابق شائقین طلبہ کوپڑھایاکرتے تھے ، مولاناعنایت الٰہی ؒصاحب مہتمم مدرسہ ہٰذ ا اورمولاناحافظ الحاج قمرالدین ؒخطیب جامع مسجدسہارنپوروخلیفہ حضرت مولاناخلیل احمدؒ صاحب سہارنپوری آپ کے انہیںمخصوص طلبہ میںہیں جواس وقت زیرتعلیم تھے اور بعدمیں انہوں نے مدرسہ میں تکمیل کی، قیام مدرسہ کے بعدسب سے پہلے مدرس مولاناسخاوت علی انبہٹوی مقرر ہوئے آپ چوک بازداران کی مسجد میں اسباق پڑھاتے اورکچھ اسباق مولاناسخاوت علی صاحب پڑھاتے ،باقی وقت مدرسہ کی توسیع ونظم ونسق میںصرف فرماتے تھے ،آپ کے مخلص معاون قاضی فضل الرحمن صاحب رئیس شہر سہارنپورتھے ۔جن کی سرگرم کوششوں کامدرسہ کے وجودواستحکام میںایک نمایاںحصہ ہے ۔
قیام مدرسہ کے چار سال بعد۱۲۸۶ھ میںحضرت مولاناسعادت علی صاحبؒ کے سایہ سے مدرسہ کومحروم ہونا پڑالیکن حضرت مولانارشیداحمدصاحب گنگوہی اورمولانامحمداحسن صاحب نانوتوی کے مشورہ سے حضرت مولانامظہر نانوتوی خلیفہ حضرت گنگوہی کوبعد شوال ۱۲۸۶ھ کومدرس اعلیٰ بنادیاگیا۔
حضرت موصوف صدرمدرس اورمولاناسخاوت علی صاحب مدرس دوم مقررہوگئے ،حضرت موصوف کے علمی تبحراورانتظامی قابلیتوں نے اس مکتب کو مدرسہ کی صورت میںتبدیل کردیاچنانچہ طلبہ کی کثرت اورمالیات کے سبب مولانانے قاضی صاحب کے مشورہ سے مولوی عبدالرزاق صاحب کومہتمم اورمولاناسعادت حسین صاحب بہاری خادم خاص وتلمیذجناب نواب قطب الدین کومدرس اول اورجناب الحاج فضل حسن صاحب ساکن محلہ چوبفروشان کوخزانچی مقررکیااورمدرسہ بھی مسجدسے متصل ایک کرایہ کے مکان میںمنتقل کرناپڑا،اس وقت تک یہ مدرسہ ’’مدرسہ عربی سہارنپور‘‘سے مشہورتھا۔
تعلیمی وانتظامی ارتقاء
۱۲۸۴میںمعیارتعلیم اتنابلندہواکہ انتہائی تعلیم کی جماعتیںبھی تعلیم پانے لگیںچنانچہ بیضاوی میں مولا نا عبدالحقؒ،مولوی نورالحسنؒ،مولوی امیربازخاں سہارنپوریؒ اورمشکوۃ میں مولاناعنایت الٰہیؒ، حضرت سہارنپوریؒ وغیرہ حضرات شریک ہوئے اورمولانامحمدمظہرصاحبؒ کے فیوض وبرکات سے نظام مدرسہ وسعت پذیر ہوتا رہا حتیٰ کہ ۱۳۰۲ھ کے ختم پرحضرت مرحوم کے سایہ سے بھی محروم ہوگیاجس سے مدرسہ کی روزافزوںترقی پراثرپڑا، بالآخرحضرت گنگوہی ؒکے ارشادپر۱۳۰۴/میںحضرت مولاناخلیل احمدسہارنپوریؒ جو مظاہرعلوم ہی سے فارغ ہوئے تھے، مظاہرعلوم کی صدرمدرسی پرتشریف لائے اور۳۰/سال تک مدرسہ میںقیام فرمایا،یہ دوراپنی گوناگوں علمی وعرفانی رفعتوں کیلئے مایۂ نازوصدافتخاراورتاریخ مدرسہ کازرّیںباب ہے ۔
دارالطلبہ قدیم ،دارالحدیث ،مسجدکلثومیہ وغیرہ حضرت موصوف ہی کی مساعی جمیلہ کے ثمرات ہیں ، فخرالمحدثین مولانااحمدعلی صاحب محدث سہارنپوری، قطب العالم مولانارشیداحمدصاحب گنگوہی،شیخ الہند مولانا محمودالحسن صاحب دیوبندی ،حضرت مولاناشاہ عبدالرحیم صاحب رائے پوری، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی، حضرت مولاناشاہ عبدالقادرصاحب رائے پوری جیسی مشہورعالم بابرکت قوی النسبت ہستیاںاپنے اپنے دورمیںمظاہرعلوم کے سرپرست کی حیثیت سے جلوہ گررہی ہیںاوریہ سب ہی حضرات مدرسہ کی جانب اپنی گہری دلچسپی اورخصوصی توجہ مبذول فرماتے رہے ۔
حضرت مولانا خلیل احمدسہارنپوری ؒنے شوال ۱۳۴۴ھ میںسفرحجازپیش آنے پرحضرت مولاناعبداللطیف صاحب کوناظم مدرسہ مقرر کیا انہوںنے نہ صرف اس منصب کی جملہ ذمہ داریوںکوانتہائی کامیابی کے ساتھ انجام کوپہنچایابلکہ مختلف علمی اورتعمیری ترقیات مدرسہ کودیں،چنانچہ طلبہ کی کثرت کی بناء پردارالطلبہ قدیم کے ناکافی ہوجانے پر دارالطلبہ کی بنیاد ڈالی اوراس کی وسیع مسجداورمتعددحجرے تعمیرکرائے، کتب خانہ ناکافی ہونے پراس کی عمارت کووسعت دی۔
حضرت موصوف کی وفات پرمنصب نظامت مولانااسعداللہ صاحبؒ کوتفویض ہوا جو پہلے نائب ناظم کے عہدے پرتھے پھروہ ناظم ہوگئے اورنائب ناظم یکم رمضان۱۳۸۵/سے حضرت مولانامفتی مظفرحسین صاحب ؒجومدرسہ کے صدرمفتی بھی تھے اوریہیںسے فارغ التحصیل تھے،مقررہوئے۔
۱۳۹۹ھ میں حضرت مولانامحمداسعداللہؒکا انتقال ہوگیاتوحضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ دوسال تک قائم مقام ناظم رہے اور ۱۴۰۱ھ مظاہرعلوم کے ناظم ومتولی مقررہوئے۔
مظاہرعلوم سہارنپور بحمداللہ اِن اکابرواعیان علم کی زیرنگرانی شاہراہِ ترقی پرگامزن رہا ،اس کی اعلیٰ تبلیغی وتعلیمی ٹھوس خدمات جاری رہیں،اوریہ ادارہ عالم اسلامی کے ان گنے چنے اداروںمیںشمارکیاجانے لگا جن کے ساتھ علوم وفنون کی بقاء ، تعلیم قرآن وسنت کی اشاعت اوردین کے تحفظ وارتقاء کی شاندارتاریخ وابستہ ہے۔
اس ادارہ کے ہزاروںفضلاء مکہ معظمہ، مدینہ منورہ، ہندوستان ،پاکستان،برما،افغانستان ،بخارا،ترکستان وغیرہ میںاخلاص ونیک نامی کے ساتھ اسلامی علوم وفنون کی اشاعت اورتبلیغ احکام دین کررہے ہیں۔
۲۸/رمضان المبارک ۱۴۲۴ھ کوفقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفرحسینؒ کے انتقال پرملال کے بعدحضرت مولانامحمدسعیدی مظاہری مدظلہ مظاہرعلوم کے ناظم ومتولی اورجانشین فقیہ الاسلام مقررہوئے ۔
آج یہ عظیم الشان ادارہ حضرت مولانامحمدسعیدی صاحب کی دوررس،بالغ نظراورفکروتدبرسے شاہ راہ ترقیات پر گامزن ہے۔فللّٰہ الحمد
(نوٹ)
مظاہرعلوم کے جملہ نظماء حضرات کے تفصیلی حالات اور ان کے عہدمیں مظاہرعلوم کی ترقیات کی تفصیلات کیلئے’’نظماء مظاہرعلوم‘‘پرکلک کریں۔