احکام عید الاضحیٰ
احکام عید الاضحیٰ
ذی الحجہ کے عشرۂ اول کے فضائل
قرآن مجید کی سورہ ٔ والفجر میں اللہ تعالیٰ نے دس راتوںکی قسم کھائی ہے، وہ راتیںجمہور کے قول کی بناء پر یہی عشرۂ اول ذی الحجہ کی راتیںہیں، حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کیلئے عشرہ ذی الحجہ سے بہتر کوئی زمانہ نہیں ان میں ایک دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر اورایک رات میں عبادت کرنا شب قدر کی عبادت کے برابر ہے ۔ اس عشرہ میں نویں تاریخ یعنی عرفہ کا دن اورعرفہ اورعید کی درمیانی رات خاص فضیلت رکھتے ہیں ،عرفہ یعنی نویں ذی الحجہ کا روزہ رکھنا گذشتہ ایک سال اورآئندہ ایک سال کے گناہوںکا کفارہ ہے اورعید کی رات میں بیدار رہ کر عبادت میںمشغول رہنا بڑی فضیلت اورثواب کا موجب ہے ۔
مسنونات عید الاضحیٰ
(۱)شرع کے موافق اپنی آرائش کرنا (۲)غسل کرنا(۳)مسواک کرنا (۴)خوشبو لگانا (۵)صبح کے وقت سویرے اٹھنا (۶)عیدگاہ بہت سویرے جانا(۷)عیدگاہ جانے سے پہلے کچھ نہ کھانا (۸)نماز عید گاہ میں جاکر پڑھنابشرطیکہ کوئی عذر نہ ہو (۹)ایک راستہ سے جاکر دوسرے سے واپس آنا (۱۰)پیادہ پا جانا (۱۱)راستہ میں اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وََاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدِبلند آوازسے پڑھنا(۱۲)عیدگاہ سے واپسی کے بعد اورکچھ کھانے سے پہلے اپنی قربانی سے گوشت کھانا۔
تکبیرات تشریق
(۱)نویں تاریخ کی صبح سے تیرھویں تاریخ کی عصر تک ہر فرض نما ز کے بعد ایک مرتبہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وََاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدِبلند آواز سے کہنا واجب ہے ۔عید کی نمازکے بعد بھی ایک مرتبہ پڑھی جائے (۲)تکبیر نما ز سے متصل کہے ۔اگر سلام پھیر کربات کرلی یا مسجد سے نکل گیا یا زورسے ہنس پڑا یا وضوتوڑ دیا تو تکبیر ساقط ہوجائے گی (۳)مسافر ومقیم ،شہر اورگاؤں میں رہنے والے مقتدی اورتنہا نماز پڑھنے والے اورعورت سب پر تکبیر واجب ہے البتہ عورت آہستہ کہے(۴)جس کی ایک رکعت یا زائد جاتی رہی ہے وہ بھی اپنی نمازسے فارغ ہونے کے بعد بلند آواز سے تکبیر کہے (۵)اگر امام تکبیر کہنا بھول جائے تو مقتدی تکبیر نہ چھوڑیں زور سے پڑھے تاکہ امام وغیرہ کوبھی یاد آجائے اوروہ بھی پڑھ لیں۔
(نوٹ)تکبیرتشریق کا (جو اوپر مذکور ہے )متوسط بلند آواز سے کہنا ضروری ہے ، بہت سے لوگ اس میں غفلت کرتے ہیں پڑھتے ہی نہیں یا آہستہ پڑھ لیتے ہیں اس کی اصلاح ضروری ہے ۔
عید کی نماز :
۔(۱)ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو د و رکعت نمازبطور شکریہ پڑھنا واجب ہے (۲)عید کی نماز کاوقت سورج کے ایک نیزہ بلند ہونے کے بعد سے زوال آفتاب تک ہے (۳)عید الاضحیٰ کی نماز پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ اول اس طرح نیت کرے کہ دو رکعت نماز واجب عید الاضحیٰ کی چھ واجب تکبیروں کے ساتھ پڑھتا ہوں ،اس نیت کے ساتھ تکبیر کہہ کرہاتھ باندھ لیں اورسُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ پڑھ کر تین مرتبہ اللہ اکبر کہے اور ہر مرتبہ مثل تکبیر تحریمہ دونو ں ہاتھ کانوں تک اٹھائے اوردوتکبیروںتک ہاتھ چھوڑتا رہے اورہر تکبیرکے بعد امام اتنی دیر توقف کرے کہ سب لوگ تکبیرکہہ سکیںاورتیسری تکبیرکے بعد ہاتھ نہ چھوڑے بلکہ باند ھ لے اورپھر حسب دستورامام قرأت کرے گا اورمقتدی خاموش رہیں گے پھر امام کے ساتھ مقتدی بھی رکوع اورسجدہ کریں گے پھر دوسری رکعت میں امام الحمد اورسورۃ پڑھ کررکوع میں جانے سے پہلے تین تکبیریں کہے گا ،مقتدی بھی پہلے کی طرح تین تکبیریں کہے اورتینوں تکبیروںمیں ہاتھ اٹھاکرچھوڑتا رہے اوربلا ہاتھ اٹھائے چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں چلاجائے (۴)عید کا خطبہ پڑھنا مثل جمعہ کے شرط وفرض نہیں ہے بلکہ سنت ہے مگر سننا جمعہ کے خطبہ کے مثل واجب ہے (۵)اگر کسی کوعید کی نماز نہ ملی ہوسب پڑھ چکے ہو ں تو تنہا نہیں پڑھ سکتا (۶)اگر کسی کی ایک رکعت نماز عید چلی جائے تو جب اس کو ادا کرنے لگے تو پہلے قرأت کرے اس کے بعد تکبیریںکہے (۷)اگر کوئی شخص نماز عید میں ایسے وقت میں شریک ہو اکہ امام تکبیروں سے فارغ ہوچکا ہو تو فوراً نیت باندھنے کے بعدتکبیر کہہ لے ورنہ حالت رکوع میں بجائے تسبیح کے بلا ہاتھ اٹھائے تکبیریںکہہ لے اگر تکبیروںسے ابھی فراغت نہیں ہوئی تھی کہ امام نے سراٹھالیا تو یہ بھی کھڑا ہوجائے اورجس قدر تکبیریں رہ گئی ہیں وہ معاف ہیں۔
قربانی کی شرعی نوعیت
قربانی ایک اہم عبادت اورشعائر اسلام میں سے ہے زمانہ جاہلیت میں بھی اس کو عبادت سمجھاجاتا تھا مگر بتوں وغیرہ کے نام پر قربانی کرتے تھے ،سورہ کوثر میں اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ جس طرح نماز اللہ کے سواکسی کی نہیں ہوسکتی ،قربانی بھی اسی کے نام پر ہو نی چاہیے فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْکا یہی مفہوم ہے ایک دوسری آیت میں اسی مفہوم کو دوسرے عنوان سے ا س طرح بیان فرمایا گیا ہے اِنَّ صَلَا تِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ۔
فضائل قربانی
(۱)حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضرت رسول اکرمﷺ کی خدمت بابرکت میںعرض کیا کہ قربانی کیا ہے ؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے با پ حضرت ابراہیم ؑکی سنت ہے ،صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارے لئے اس میں کیا (اجروثواب )ہے ارشاد فرمایا کہ ہرہر بال کے عوض ایک نیکی ملتی ہے
(۲)حضرت رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بنی آدم کا کوئی عمل بقرعید کے دن خدا تعالیٰ کو (قربانی کاخون)بہانے سے زیادہ محبوب نہیںاور(قربانی کا )خون زمین پر گرنے سے پیشترہی جناب الٰہی میں قبول ہوجاتا ہے پس اس (قربانی )سے اپنا دل خوش کرو
(۳)حضرت رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے محض ثواب کی نیت سے قربانی کی تو وہ اس کے لئے (دوزخ)کی آگ سے آڑ بن جائے گی ۔
مسائل قربانی
قربانی کس پر واجب ہوتی ہے :۔
قربانی کرنا ایسے شخص پر واجب ہے جو مسلمان اورمقیم ہو یعنی مسافرشرعی نہ ہو اورضرورت اصلیہ کے علاوہ بقدر نصاب مال کا مالک ہوخواہ مال نقد ہو یا اسباب اوراس پر سال گذرنایا تجارتی ہونا شرط نہیں بلکہ آخر ایام قربانی میں کسی صورت سے اگر مال کا مالک ہوجائے تب بھی قربانی واجب ہے اسی طرح اگر بارھویں ذی الحجہ کو سورج ڈوبنے سے پیشترمسلمان ہوجائے یا مسافرشرعی مقیم ہوجائے اوربقدر نصاب مال کا مالک ہوجائے تو قربانی واجب ہے
تنبیہ:۔
جس شخص پر قربانی واجب ہے اس کو ایام قربانی میں قربانی کرنا ہی واجب ہوگا قربانی کی رقم کو کسی اورمصرف خیر میںخرچ کرنا اوراس کو قربانی کا بدل سمجھنا جائزنہیں ہے ۔
ضرورت اصلیہ اورنصاب کی تشریح
وہ ضرورت جو جان یا آبروسے متعلق ہو یعنی اس کے پورا نہ ہونے سے جان یا آبروجانے کا خوف ہومثلاً کھانا پینا ،کپڑے ،رہنے کا مکان،پیشہ ورکو اس کے پیشہ کے اوزارباقی بڑی بڑی دیگیں، بڑے بڑے شامیانے اورفرش اسباب ضروریہ میں داخل نہیں ہیں۔
نصاب:۔
مال کی وہ خاص خاص مقداریںجن پر شریعت نے زکوۃ فرض کی ہے مثلاً چاندی کا نصاب دوسو(۲۰۰)درہم ہے جس کے ساڑھے باون تولہ (۶۱۲گرام ۳۵ملی گرام)ہوتے ہیں اورسونے کا نصاب بیس مثقال ہے جس کے ساڑھے سات تولہ (۸۷گرام ۹۷۹ملی گرام )ہوتے ہیں ۔
قربانی کی نیت :۔
قربانی کی نیت صرف دل سے کرنا کافی ہے زبان سے کہنا ضروری نہیں البتہ ذبح کے وقت بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرکہنا ضروری ہے ۔
قربانی کے ایام اوروقت
(۱)قربانی صرف تین دن کے ساتھ مخصوص ہے (۲)دسویں تاریخ سے لے کر ۱۲؍تاریخ کے غروب آفتاب تک قربانی کا وقت ہے لیکن قربانی کرنے کا سب سے بہتر دن دسویں تاریخ ہے پھر گیارھویںپھر بارھویں۔ (۳)شہر اورقصبہ کے رہنے والے کوعید کی نماز سے پیشتر قربانی کرنا درست نہیں لیکن جس شہر میںکئی جگہ عید کی نماز ہوتی ہو تو شہر میں کسی جگہ بھی نمازعید ہوجانے پر پورے شہرمیں قربانی جائز ہوجاتی ہے البتہ اگرکوئی گاؤںمیں رہتا ہو تو وہاں صبح صادق کے بعد بھی قربانی کرنا درست ہے لیکن مستحب سورج نکلنے کے بعد ہے (۴)بارھویں تاریخ کو سورج ڈوبنے سے پہلے قربانی کرنا درست ہے جب سورج ڈوب گیا تب قربانی درست نہیں (۵)قربانی دسویں ذی الحجہ سے بارھویں ذی الحجہ تک جب جی چاہے کرے رات کو یا دن کو البتہ رات کو بہتر نہیں ۔
قربانی کے جانور کے شرائط اوراوصاف
(۱)شرعاً بھیڑ ،بکری،بکرا،دنبہ،گائے،بیل ،بھینس،بھینسا،اونٹ ، اونٹی کی قربانی درست ہے اورکسی جانورکی قربانی درست نہیں(لیکن قانوناً گائے اوراس کی نسل کاذبیحہ بندہے (۲)بکرا ، بکری سال بھرسے کم کی درست نہیں جب پور ے سال بھر کی ہوچکے تب قربانی درست ہے اوراونٹ پانچ برس سے کم کادرست نہیںالبتہ بھیڑ،یا دنبہ اتنا موٹا تازہ ہو کہ سال بھر کا معلوم ہو اورسال بھر والے بھیڑ اوردنبوں میں اگر چھوڑدیا جائے تو کچھ فرق نہ معلوم ہو توایسے چھ ماہ کے بھیڑ اوردنبے بھی درست ہیں (۳)بھیڑ ،بکری اوردنبہ کے علاوہ بقیہ جانوروں میں اگر سات آدمی شریک ہوکرقربانی کریں تو یہ بھی درست ہے لیکن شرط یہ ہے کہ کسی کاحصہ ساتویں حصہ سے کم نہ ہو اورسب کی نیت قربت کی ہواگر کسی شخص کی نیت فقط گوشت کی ہوگی یا کسی کا حصہ ساتویں حصہ سے کم ہوگا تو کسی کی بھی قربانی درست نہ ہوگی (۴)قربانی کے لئے کسی نے جانور اس نیت سے خرید کیا کہ اگرکوئی اورمل گیا تو اسے بھی شریک کرلیں گے ،خریداری کے بعد کچھ اورلوگ شریک ہوگئے تو درست ہے اوراگر خریدنے کے وقت یہ نیت نہ تھی بلکہ اپنی ہی طرف سے پورا جانور قربانی کرنے کی نیت تھی تو اگر خریدنے والے پر قربانی واجب تھی اس کیلئے دوسرے کو شریک کرنا جائز ہے مگر بہتر نہیںاوراگر خریدنے والے پرقربانی واجب نہ تھی تو اس کیلئے دوسر ے کو شریک کرنا جائزنہیں (۵)جس شخص پرقربانی واجب تھی اگراس نے قربانی کاجانورخریدکیا پھر وہ غائب ہوگیایا چوری ہوگیا یا مرگیا تو اس کی جگہ دوسری قربانی کرنا واجب ہے اوراس کی قربانی کے بعد پہلا جانور مل جائے تو بہتر یہ ہے کہ اس کی بھی قربانی کردے لیکن اس پر اس کی قربانی کرنا واجب نہیں اگر اس شخص پر پہلے سے قربانی واجب نہ تھی ،نفلی طورپر اس نے قربانی کاجانور خرید لیا تھا پھر وہ مرگیا یا غائب ہوگیا تو اس کے ذمہ دوسری قربانی واجب نہیں ہاں اگرگم شدہ جانورقربانی کے دنوں میں مل جائے تو اس کی قربانی کرنا واجب ہے اورایام قربانی کے بعد ملے تو اس جانور یا اس کی قیمت کاصدقہ کرنا واجب ہے ۔
وہ عیب جن کی وجہ سے قربا نی جائز نہیں
(۱)وہ بکری جوباولی ہوکر گھومنے لگے اوردوسری بکریوں کے ساتھ رہنا اورچرنا چھوڑدے (۲)وہ بکری جوخارش کی وجہ سے اس قدر دبلی ہوگئی ہو کہ اس کی ہڈیوںمیں مغز نہ رہا ہو (۳)اندھا ہونا ، کانا ہونا ،اس درجہ دبلا ہونا کہ ہڈیوں میں مغزنہ رہا ہو ایسی بیماری ہونا کہ مرض بالکل ظاہرہو (۴) تہائی سے زیادہ حصہ کان یا دم کٹا ہوا ہونا یا آنکھ کی تہائی سے زائد روشنی جاتی رہی ہو (۵)جس جانورکے بالکل دانت نہ ہوںیا جس کے اکثر دانت ٹوٹ گئے ہو ں (۶)جس کے پیدائش کے وقت سے کان ہی نہ ہوں لیکن اگرچھوٹے چھوٹے ہوں تو جائز ہے (۷)جس کے تھن کسی مرض کی وجہ سے مرگئے ہو ں ، بکری کا ایک تھن اورگائے اوراونٹنی کے دوتھن تمام کے حکم میں ہیں (۸)زبان کا اس درجہ کٹاہوا ہونا کہ چرنے اورکھانے سے مانع ہو (۹)سینگ بالکل جڑ سے ٹوٹ گئے ہوں البتہ اگرجڑسے نہ ٹوٹے ہوں یا پیدائشی نہ ہوں تو جائز ہے (۱۰)لنگڑاپن اس درجہ ہوکہ فقط تین پاؤں سے چلتا ہوچوتھا پاؤں رکھا ہی نہ جاتا ہو یا چوتھے سے چل ہی نہ سکتا ہو (۱۱)خنثیٰ ہونا ۔ (۱۲)اگر کوئی جانورصحیح سالم خریداتھا پھر اس میں کوئی عیب مانع قربانی پیداہوگیا تو جس پر قربانی واجب تھی اس کو دوسرا جانورخریدکرقربانی کرنا ضروری ہے اورجن پر قربانی واجب نہ تھی اس کووہی کافی ہے (۱۳)اگر کوئی عیب ذبح کرنے کے وقت تڑپنے سے پیدا ہوتو اس کی قربانی درست ہے ۔
مستحبات قربانی:۔
(۱)قربانی کے جانورکاموٹا اورخوبصورت ہونا (۲)چھری کا تیزہونا (۳)ذبح کرنے کے بعد ٹھنڈاہونے تک کھال نہ اُتارنا (۴)اگر ذبح کرنا جانتا ہو تو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا اوراگراچھی طرح ذبح کرنا نہ جانتا ہو تو دوسرے کے ذبح کرنے کے وقت خود موجود رہنا ۔ (۵)ذبح کے وقت یہ دعا پڑھنا ، اِنِّی وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفاً وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اِنَّ صَلٰوتِی وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ لاَشَرِیْکَ لَہٗ وَبِذَالِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ۔اَللّٰھُمَّ مِنْکَ ولَکَ۔ (۶)ذبح کرنے کے بعد یہ دعاء پڑھنا ،اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْہُ مِنِّی کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ وَّخَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْھِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامِ۔(۷)ذبح کرنے کے وقت سختی نہ کرنا (۸)رسی وغیرہ خیرات کردینا ۔
قربانی کا گوشت :۔
(۱)جس جانورمیں کئی حصہ دارہوںتوگوشت خوب اچھی طرح وزن کرکے تقسیم کیا جائے ،اندازے سے تقسیم نہ کریں کیونکہ اگر کوئی حصہ کم یا زیادہ رہ جائے گا تو سود ہوجائیگا جو سخت ترین گناہ ہے البتہ اگرگوشت کے ساتھ کلہ پائے شریک کریں تو جس طرف کلہ پائے ہوں تو اس طرف گوشت کاکم ہونا درست ہے ۔(۲)قربانی کا سار ا گوشت خو د بھی استعمال کرسکتا ہے لیکن افضل یہ ہے کہ گوشت تین حصے کرکے ایک حصہ اپنے اہل وعیال کے لئے رکھے ایک حصہ احباب واعزہ میں اورایک حصہ فقراء ومساکین میںتقسیم کرے۔ (۳)قربانی کاگوشت فروخت کرنا حرام ہے ۔(۴)ذبح کرنے والے کی اجرت میں گوشت یاکھال دینا جائز نہیں (۵)قربانی کا گوشت کافرکو دیناجائزہے بشرطیکہ اجرت میں نہ دیا جائے ۔
قربانی کی کھال :۔
(۱)بہتریہ ہے کہ قربانی کے جانور کی کھال خیرات کی جائے (۲)قربانی کے جانورکی کھال کواپنے استعمال میںلانامثلاً ڈول یامصلّٰی وغیرہ بنوالینایا کسی کوہدیۃً دینا جائزہے (۳)قربانی کرنے والے نے اگر کھال کو فروخت کردیا تو اس کی قیمت اپنے خرچ میں لانا جائز نہیں بلکہ صدقہ کرنا واجب ہے (۴)قربانی کی کھال یا اسکی قیمت قصائی کی اجرت میں دینا جائزنہیںہے اسی طرح امام اورمؤذ ن کی خدمت مسجد کی اجرت میں دینا یا کسی ملازم کی تنخواہ میں دینا جائز نہیں (۵)قربانی کی کھالوں کا فقراء اورمساکین پر خیرات کرنا بہترہے ۔ اسی ذیل میں مدارس اسلامیہ عربیہ کے غریب اورنادار طلبہ بھی ان کھالوں کابہترین مصرف ہیں کہ اس میں صد قہ کا ثواب بھی ہے اوراحیاء علم دین کی خدمت بھی مگر مدرسین وملازمین کی تنخواہ میں دینا جائز نہیں۔
ضروری گزارش
مظاہر علوم (وقف)سہارنپورکسی تعارف کا محتاج نہیں ہے،دنیاکے مختلف خطوں اور علاقوں میں اسکے فضلاء وفارغین ، دینی ،تعلیمی اوردعوتی خدمات میںمصروف ہیں۔
مدرسہ میں زیر تعلیم طلبہ کی تعدادتقریباً ڈیڑھ ہزارہے جن میں سے اکثرکے طعام وقیام کی کفالت مدرسہ کے ذمہ ہے ، مختلف تعمیری کاموں اوراساتذہ وملازمین کے مشاہروں وغیرہ کے باعث گرانی کے اس دورمیںاس کے سالانہ مصارف ۵/کروڑ روپے ہیں ۔
مدرسہ کی کوئی مستقل آمدنی نہیں ہے اورنہ ہی حکومت سے کوئی مدد لی جاتی ہے ، بفضلِ الٰہی اس کے جملہ اخراجات حضرات اہل خیر کے تعاون ہی سے پورے ہوتے ہیں۔
رمضان شریف میںہر امرخیر کااجراضعافامضاعفۃ ہوتا ہے ،حدیث شریف میں ہے جوشخص رمضان شریف میںنیک کام (نفل)کرتا ہے وہ ثواب اوراجر کے لحاظ سے اس شخص کے برابر ہے جو دوسرے مہینوںمیں فرض اداکرے اورجوشخص اس مہینہ میں فرض ادا کرتا ہے وہ اس شخص کے مانند ہے جودوسرے وقت میںستر فرض ادا کرے۔اس لئے اس وقت خصوصیت سے اس کی امداد کی طرف توجہ مبذول فرماکراجر عظیم حاصل فرمائیں ۔