mazahiruloom@gmail.com 9045818920

بانیان کرام

حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوریؒ

شہرسہارنپور کے جس علمی وروحانی خمیرسے حضرت مولانا وجیہ الدین صاحب سہارنپور،فقیہ الاسلام حضرت مولانا سعادت علی صاحب سہارنپوری جیسے سینکڑوں اکابر امت اور اساطنی ملت اور زعماء پیداہوئے ،اسی متبرک خمیر سے خمخانۂ شاہ اسحاق محدث دہلویؒ کے جرعہ نوش،سید الطائفہ حضرت اقدس حاجی امداد اللہ مہاجرمکیؒ کے استاذ محدث کبیر حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوریؒ۱۲۲۵ھ؁ ۱۸۱۰ء؁ میں سہارنپور میں پیداہوئے۔

نام ونسب

حضرت محدث سہارنپوری ؒ ،سہارنپور کے ایک ایسے انصاری خاندان کے چشم وچراغ تھے جو اپنی ممتاز علمی،دینی ،روحانی اور عظیم المرتبت شخصیات کی وجہ سے مشہور ومعروف ہے،آپ کا سلسلۂ نسب اسی طرح ہے۔
’’مولانا احمدعلی بن شیخ لطف اللہ شیخ محمد جمیل بن شیخ احمد بن شیخ محمد بن شیخ بدرالدین بن شیخ صدرالدین بن شیخ ابو سعید شیخ جوہر انصاریؒ (خلیفہ حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہیؒ۱؎

تعلیم وتربیت

تقریباً۱۸سال تک لہوولعب اور کبوتربازی وغیرہ خرافات میں عمر گزاردی،تعلیم کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جس کا قلق اور اندرونی طورپر قلبی احساس مظاہرعلوم(وقف)کے بانی فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی سعادت علیؒ کو بہت شدت سے تھا چنانچہ حضرت مفتی سعادت علی ؒ نے ایک شخص کے ذریعہ مولانا احمد علی ؒسے ایک علمی مسئلہ ردیافت کرایا اس شخص نے حضرت محدث سہارنپوری سے مسئلہ پونچھا تو آپ جواب نہ دے سکے جس پر اس سائل نے طنز اً کہا کہ شہر کے اتنے بڑے علمی ودینی خانوادے میں رہ کر تمہیں یہ مسئلہ معلوم نہیں ؟اس بات سے حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری کے دل پر سخت چوٹ لگی اور اپنی عمر کے اٹھارہ سال بالکل ضائع ہوجانے کا تنبہ ہوا چنانچہ لہوولب اورکبرتربازی وغیرہ چھوڑکر تحصیل علم کے لئے کھڑے ہوگئے سب سے پہلے میرٹھ تشریف لے گئے وہاں حفظ قرآن
کے ساتھ ابتدائی فارسی کی تعلیم حاصل کی ،میرٹھ کے بعد سہارنپور میں حضرت مولانا سعادت علی فقیہ سہارنپوریؒ سے عربی کی ابتدائی کتب پڑھنے کا شرف حاصل کیا حضرت اقدس مولانا مفتی الٰہی بخش قدس سرہ کے پاس کاندھلہ پہنچے اور ان کے سامنے زانوئے تلمذتہ کیا،وہاں زیادہ عرصہ نہ گزراتھا کہ مفتی کا انتقال ہوگیا۹؎ ۔تو علم کی سچی تڑپ اور پیاس دہلی کھینچ کرلے گئی جہاں استاذ الکل حضرت مولانا مملوک العلیؒ کی محفل درس قائم تھی اور دنیائے علم وعرفان کی برگزیدہ ہستیاں کتابی علوم کے ساتھ روحانی تعلیم بھی حاصل کررہی تھیں۔حضرت محدث سہارنپوریؒ بھی حضرت مولانا مملوک العلیؒکے دریائے علم میں غوطہ زنی کرنے لگے،ایک طویل مدت تک حضرت مولانا مملوک العلیؒ کے دربارگہربارمیں علمی وروحانی تعلیم وتربیت میں مصروف رہے اسی دوران سید الطائفہ حضرت اقدس حاجی امداداللہ مہاجرمکیؒ حضرت مولانا مملوک العلی ؒ سے تعلیم حاصل کرنے کیلئے پہنچے چنانچہ مولانا مملوک العلی نے دیگرکتابیں خودپڑھائیں مگرگلستاں سعدی کا سبق حضرت محدث سہارنپوریؒ کے سپردکیاحالانکہ ابھی حضرت سہارنپورعلم حاصل کررہے تھے اس طرح تعلیم کے دوران تعلم کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۲؎۔
حضرت مولانا احمد علیؒنے بخاری شریف کا اکثر حصہ اپنے تایا حضرت مولانا شاہ وجیہ الدین محدث سہارنپوریؒ سے پڑھا ۳؎ مولانا وجیہ الدین ؒکو فقہ وتفسیر اور حدیث وغیرہ میں نہایت درجہ مہارت تھی آپ کے فتاوی معاصرعلماء کی نظروں میں مستند اور معتبر تھے حضرت شاہ محمد اسحاق دہلویؒ آب کے فتاوی کو خاص اہمیت دیتے تھے آپ کے اساتذہ میں حضرت مفتی الٰہی بخش کاندھلویؒ بھی ہیں۔
دہلی کے قیام کے دران حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق محدث دہلویؒ مکۃ المکرمہ ہجرت فرماگئے جس کی وجہ سے آپؒ سے استفادہ کا موقع نہ مل سکا جس کا حضرت محدث سہارنپوریؒ کو نہایت درجہ احساس اور قلق تھا چنانچہ اپنے استاذحضرت مولانا مملوک العلیؒ کی رفاقت میں مکۃ المکرمہ تشریف لے گئے اور حضرت شاہ ؒ کے پاس ایک سال سے کچھ زائد عرصہ رہ کر صحاح ستہ کادرس حاصل کیا اور اسی دوران حج بیت اللہ کی سعادت بھی نصیب ہوئی ۔مکۃ المکرمہ میںحضرت محدث سہارنپوریؒ کے معمولات میں سے یہ تھا کہ فجر کے بعدسے ظہرتک احادیث کی کتابوں کو نقل فرماتے تھے اور ظہرکے بعد سے حضرت شاہؒ کی مجلس درس میں حاضرہوتے تھے اسی مجلس میں صحاح ستہ کومکمل فرمایا۴؎۔
۱۲۶۱ھ؁ میں تعلیم سے فراغت اور حضرت شاہ ؒسے خدمتِ حدیث شریف کی سند وجازت عطاہوئی ۵؎پھر وہاں سے ہندوستان تشریف لاکر دہلی مین قیام فرمایا اور حدیث نبوی کی تعلیم کے ساتھ حدیث کی اعلیٰ کتب بخاری،مسلم،ترمذی،ابودائود،مشکوٰ المصابیح وغیرہ کی تصحیح حواشی او تعلیق کی طرف متوجہ ہوئے پھر ان تصحیح شدہ کتابوں کی طباعت کیلئے پریس خریدا جو ’’مطبع احمدی‘‘سے مشہور ومعروف ہوا۔اس مطبع نے حدیث کی بے مثال ،ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں۔

خدمت حدیث شریف

حضرت محدث سہارنپوریؒ کی زندگی کا سب سے اہم،ممتاز اور معیاری کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے کتب خانہ کا وہ کام انجام دیا جوصدیوں سال سے امت مسلمہ پرقرض چلاآرہا تھا یعنی آپ نے کتب حدیث کی نہایت محنت،مشقت،باریک بینی،عرق ریزی،دقت نظری اور غایت اہتمام سے نہ صرف تصحیح کی بلکہ ان کی تعلیق عمدہ حواشی بے مثال بین السطور بھی رقم فرمائے چنانچہ بخاری شریف ،ترمذی شریف،مشکوٰۃ المصابیح پرنہایت عالمانہ،فاضلانہ اور محققانہ حواشی ثبت فرمائے اور ان کی اغلاط کی تصحیح کافریضہ انجام دیا،مسلم شریف کی تصحیح کے بعد ہندوستان میں سب سے پہلی مرتبہ شرح نووی کے ساتھ اپنے مطبع سے شائع کیا ،ابودائود شریف کی تصحیح کے دوران کئی قدیم نسخوں کوسامنے رکھا،بخاری شریف کا حاشیہ آپ کے تمام حاشیوں اور کاوشوں میں تصحیح کے دوران کسی قدیم نسخوں کو سامنے رکھا،بخاری شریف کا حاشیہ آپ کے تمام حاشیوں اور کاوشوں میں اہمیت کا حامل ہے جس میں غیر معمولی کاوش سے کام لیا،متعدد علماء اور حدیث نبوی کے متخصصین وماہرین سے مددلی تقریباً دس سال سے زیادہ عرصہ اسی بخاری شریف کی خدمت میں لگ گیا لیکن جب طبع ہوکر منظرعام پر آئی تو بڑے بڑے علماء آپؒ کی دقت نظری کے قائل ہونے پر مجبورہوئے ،ہرچہار جانب سے پذیرائی کی گئی اور آپ کی اس خدم کو عوام وخواص نے اتنا سراہا کہ دنیا کے چپہ چپہ میں جہاں جہاں علوم نبوی کی تعلیم ہوتی ہے وہاں وہاں مظاہرعلوم کے مہتمم حضرت مولانا احمد علی ؒ نکتہ آفرینی ،حذاقت ومہارت،آپ کے علوم کی رفعت ،حدیث نبوی بر کامل دسترس ہونے کی تعریف وستائش کی جاتی ہے اور انشاء اللہ تاقیام قیامت بخاری شریف کے ساتھ حضرت محدث سہارنپوری اور مظاہرعلوم کا نام روشن رہے گا جس پربجاطورپرمظاہرعلوم کو ہمیشہ ناز رہا ہے۔
غرض ان تمام کتابوں کی غائرانہ وماہرانہ تصحیح وتحشیہ کے بعد بڑے اہتمام سے چھپوایا طباعت کے بعد بھی مزید تحقیق وتفتیش میں لگے رہے ،پہلے اور دوسرے ایڈیشن کے بعد تیسرے ایڈیشن کے وقت سابقہ ایڈیشنوں کی اغلاط کودورکیا،رجال کے انساب اور کُنی کامفید اضافہ فرمایا اور ۱۸۶۷ء؁ میں تیسرا ایڈیشن منظرعام پرآیا۔
مذکورہ لازوال ولاجواب خدمات کے ساتھ ساتھ آپ نے دوسری کتب بھی تحریر فرمائی ہیں جن میں ایک کتاب قرأت خلف الامام سے متعلق عربی میں تحریر کی جس کا نام’’الدلیل القوی علی ترک قرأ ۃ المقتدی‘‘ہے ۱۸۵۴ء؁ میں دہلی سے شائع ہوئی پھر اس کے فیض کو مزید عام کرنے کیلئے آپ نے اس کتاب کا اُردو میں ترجمہ کیا جو ۱۸۷۸ء؁ میں طبع ہوکر مقبول ہوئی۶؎۔
آپؒ کو فقہ حنفی پر مکمل عبورتھا آپ کے فتاویٰ نہایت معتبر،مستند اور معاصرین کی نظروں میں خاص اہمیت تھی۔

پریس ضبط ہوگیا

حضرت محدث سہارنپوریؒ نے رمضان ۱۲۷۳ھ؁ (۱۸۵۷ء؁)تک دہلی میں حدیث کی بے مثال علمی خدمات کیساتھ درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا لیکن۱۸۵۷ء؁ کے خونچکاں فسادات کا لامتناہی سلسلہ جس نے پورے ہندوستان بالخصوص دہلی کو تہ وبالا اور زیروزبرکرکے رکھ دیا تھا دہلی کے مسلمانوں پرتشددوظلم کے جو پہاڑتورے گئے وہ تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ،ہزاروں بے قصور وں کو خنزیر کی کھالوں میں بھر کر نذرِآتش کیا گیا چوّن ہزار علماء کو پھانسیاں دی گئیں ،تین لاکھ قرآن کے نسخے جلاکر جمنا کے حوالے کردیا گیا ،ہزاروں زندہ لوگوں کوباندھ کر دریا بردکیا گیا ،معصوم مائوں بہنوں اور عفت مآب بیٹیوں کو سفید فام درندوں اور بشکل انسان شیطانوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بناکر انہیں گولیوں سے بھون دیا ،سینکڑوں عفت مآب مائوں اور بہنوں نے اپنی عصمت کی حفاظت وصیانت اور اپنے پاک وصاف دامن کو داغدار ہونے سے بچانے کی خاطر کنویں اور دریامیں کود کرجان دیدی،چنانچہ بعض کنویں ایسی معصوم مریموں کی لاشوں سے بھرگئے تھے،عام مسلمانوں کی املاک اور جائدادوں کوہڑپ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مکانات کو نذرِآتش کیا گیا غرض دہلی مسلمانوں کیلئے مقتل بن چکا تھا ایسی صورت میں مسلمان اپنی جان بچاکر دہلی سے ہجرت کررہے تھے حضرت مولانا احمد علی ؒ محدث سہارنپوری بھی بڑی مشکل سے دہلی سے ہجرت پرمجبور ہوئے،آپ کا تاریخی پریس عیسائی درندوں کے جبروتشددکاشکار ہوگیا،چنانچہ دہلی سے سہارنپور تشریف لائے اور ڈیڑھ دوسال تک حدیث کی خدمت اور درس دینے میں مصروف رہے ،پھر میرٹھ کے مشہور رئیس شیخ الٰہی بخش۶؎ لال کرتی کے یہاں پانچ سوروپے ماہوار ملازمت اختیار کرلی۷؎۔
رئیس صاحب بہت بڑے تاجر تھے پشاور سے کلکتہ تک تمام چائونیوں میں سامان پہنچانے کا ٹھیکہ آپ ہی کے پاس تھا چنانچہ کلکتہ اور مضافات میں رئیس صاحب نے حضرت مولانا احمد علی صاحبؒ کو مقررکیا اسی سلسلہ میں تقریبا۹/۱۰/سال تک کلکتہ میں قیام رہا،وہاں بھی حدیث نبوی کی تدریس کاسلسلہ چلتا رہا اور حدیث نبوی کے شائقین فیض حاصل کرتے رہے۸؎۔
اسی دوران حج بیت اللہ کیلئے تشریف لے گئے وہاں علماء دیوبند کے روحانی پیشوا،سید الطائفہ حضرت اقدس حاجی امداللہ مہاجر مکی تھانویؒپیام پذیر تھے ،آپؒ سے جب ملاقات ہوئی تو حاجی صاحب نے فرمایا کہ مولانا مملوک العلی نے گلستاں کاسبق آپ کے سپرد کیا تھا اس لحاظ سے آپ میرے استاذ ہیں مگرایک بات آپ سے عرض کروں گا کہ آپ نے جورئیس صاحب کی ملازمت اختیار کی ہے یہ اچھا نہیں لگتا،آپ صاحب علم ہیں،چاہئے تو یہ تھا کہ آپ حاکم اور وہ محکوم ہوں جب کہ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے اس لئے آپ ملازمت چھوڑکر حدیث نبوی کی تدریس اور خدمت میںلگ جائیے تاکہ خلق کو فیض ہو،مولانا نے قبول کرکے فرمایا کہ آپ ہمارے لئے حرم محترم میں دعافرمائیں ۔(شمائم امدادیہ بتغیر اللفظ)

ملازمت سے استعفاء

حج بیت اللہ سے فراغت کے بعد آپ ہندوستان آئے اور رئیس صاحب کی ملازمت سے استعفاء دیکر سہارنپور تشریف لائے اور کچھ عرصہ تک اپنے دولتکدہ پردرس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا جو مظاہرعلوم کے لئے بڑی سعادت اور خوشی کی بات تھی چنانچہ مظاہرعلوم کی قدیم روداد میں کئی جگہ اس خوشی ومسرت کا بڑے کھلے لفظوں میں اظہارکیاگیا ،چنانچہ ۱۲۹۱ھ؁ کی روداد میں مرتب لکھتے ہیں۔
’’طالب علموں وعلوم دینیہ کے شائقین کو مژدہ ہوکہ امسال مولوی احمد علی مدفیوضہ کلکتہ سے ترک تعلق کرکے سہارنپورمیں مقیم ہیںغرض اصلی یہی ہے کہ جس قدربن پڑے علوم دینی کے پڑھانے میں اوقات صرف کیجئے ؎

ساقیایاں لگ رہا ہے چل چلائو
جب تلک بس چل سکے ساغرچلے

چنانچہ طالب علم حدیث مسافت بعیدہ سے یہ مژدہ سنکر فراہم ہوگئے اور کچھ مدرسہ مظاہرعلوم کے طالب علم بھی ان سے پڑھتے ہیں،اکثر روزدرس وتدریس میں گزرتا ہے بلکہ رات کو بھی بعض طالب علم پڑھتے ہیں اور ان کے سہارنپور کے قیام سے کتابوں کی مددبھی طالب علموں کو بہت ملتی ہے۱۱؎۔
اپنے دولت کدہ پرتقریبا ایک سال تک درس حدیث دیتے رہے پھر جب مظاہرعلوم کی باقاعدہ عمارت (مدرسہ قدیم)۱۲۹۱ھ؁ سے ۱۲۹۲ھ؁ تک مکمل ہوئی تو آپؒ مدرسہ کی اس عمارت میں منتقل ہوگئے تاحیات مظاہرعلوم میں درس دیتے رہے،مظاہرعلوم میں آپ کی خواہش وتمنا کے مطابق ایک درسگاہ خاص کردی گئی جہاں آپ طلبہ پر علوم کی بارش برساتے تھے،آپ نے اپنی کتب بھی اسی درسگاہ میں رکھیں تاکہ طالبان علوم زیادہ سے زیادہ فیض اٹھاسکیں،ان تمام توجہات اور بے پایاں عنایات کے باوجود آپ نے پوری زندگی مظاہرعلوم کی حسبۃً للہ خدمت انجام دی چنانچہ مظاہرعلوم کی روداد میں ہے۔
’’الحمد للہ علی احسانہ کہ اس مدرسہ کے حال پر خداوندسبحانہ نے کتنا بڑا کر م فرمایا اور اس کی بیکسی پررحم کھاکرکیسا مدرس بغیر تنخواہ عنایت کیا کہ اگر دوسوروپئے ماہوارصرف کرکے ہم مدرسہ کی آراستگی ایسے مدرس کے وجود باجود سے چاہتے تو ہرگز میسر نہ ہوتا چشم بددورگویا آفتاب علم بانی روح سعادت پرتاباں ہے اور نیز اعظم سماء رفعت اسی مدرسہ پردرخشاں ہے،خداوند جتنا بڑا تونے انعام فرمایا ہے اتناہی اس کے شکر کی توفیق عطافرما۔

ع ’’شکرنعمت ہائے توچندانکہ نعمت ہائے تو‘‘۱۲؎

حضرت محدث سہارنپوریؒ مظاہرعلوم میں درس دینے کے ساتھ ساتھ اپنے دولت کدہ پربھی متعدد طلبہ کو درس دیتے رہے اورا ن کے طعام وغیرہ کا خود ہی تکفل فرماتے تھے ،مدرسہ کا نام’’مظاہرعلوم‘‘آب ہی نے تجوید فرمایا۱۲۹۱ھ؁ سے قبل کی تمام روداد میں ’’عربی مدرسہ ‘‘کے نام سے طبع ہوتی رہیں’’مظاہرعلوم‘‘)۱۲۹۲ھ؁ سے ’’مدرسہ قدیم‘‘کی عمارت کی تکمیل کا سنہ بھی برآمدہوتا ہے اور اس کے صدرالمدرسین فخرالاماثل حضرت مولانا محمد مظہرنانوتویؒ کے اسم گرامی کی طرف لطیف اشارہ بھی ہے۔
مولانا احمد علی صاحبؒ کے تعلم کا یہ حال تھا کہ فجر سے عشاء تک طلبہ کی بھیڑ لگی رہتی تھی حتی کہ گھرسے مدرسہ آتے وقت راستے میں بھی طلبہ کو پڑھاتے جاتے تھے،یہی نہیں عصر کے بعد جب تفریح کیلئے گھوڑے پرسوار ہوتے اسو قت بھی علوم نبوی کے شائقین ساتھ ساتھ دوڑتے اور علم حاصل کرتے تھے۔۱۳؎
مظاہرعلوم میں طلبہ کی جس محنت،لگن اور خلوص سے حضرت محدثؒ نے تعلیم دی اس نے دوردورتک ’’مظاہرعلوم’’کا شہرہ بلندکیا،اس کا نظام تعلیم وتربیت عوام وخواص نے خوب سراہا اور الحمد للہ اکابرکے خطوط ونشانات اور ان کی روایات پر اب بھی چلنے میں’’مظاہر علوم‘‘فخرمحسوس کرتا ہے۔
آپ کی انتھک کوششوں اور مساعی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ مظاہرعلوم میں جو کتب زیردرس تھیں ان میں سے کئی کئی کتابوں کو دودوبار(مکرر)پڑھایا تھا جن کی پوری تفصیل روداد مظاہرعلوم (۱۲۹۱ھ؁ تا ۱۲۹۷ھ؁) میں مل سکتی ہے۔
فخر الاماثل حضرت مولانا محمد مظہر نانوتویؒ ۱۲۹۴ھ؁ میں جب حج بیت اللہ کیلئے تشریف لے گئے تو حضرت محدث سہارنپوری ؒ نے ان کے عہدۂ صدارت کے تمام امور باحسن وجو ہ انجام دئے ان سے متعلقہ کتب بھی پڑھائیں اور ان کے دیگر امورکو انجام دیا۱۴؎۔
۱۲۸۶ھ؁ میں جب آپ کے ساتاذعبقری الدہر فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی سعادت علی صاحبؒ فقیہ کاسانجہ،ارتحال پیش آیا تو اتفاق رائے سے حضرت قاضی فضل الرحمن صاحب ؒمہتمم بنائے گئے مدرسہ کے اعیان اور اکابرنے حضرت محدثؒ کو چونکہ نائب مہتمم کا عہدہ خالی تھا اس لئے اس عہدہ پر سرفراز کیا ،پھرتھوڑے ہی عرصہ کے بعد ۱۲۹۱ھ؁ میں آپ کو مظاہرعلوم کے جلسۂ عام میں اتفاق رائے ئے مدرسہ کا مہتمم تجویزکیا گیا اور اس سال ۱۲۹۱ھ؁ کی روداد مہتمم مدرسہ کی جگہ آپ کا اسم گرامی شائع ہوا۱۵؎۔
حقیقت یہ ہے کہ مولانا احمد علی صاحبؒ محدث سہارنپوری کی تشریف آوری سے مظاہرعلوم کو بہت زیادہ ترقی ملی ،تعلیمی معیار بلند ہوا،مالی استحکام ہوا،دوردراز تک اس کی شہرت ہوئی او اس کو مقبولیت کا ڈنکا بجا،ملیات کی فراہمی کیلئے آپ نے بار بار سفر فرمایا چنانچہ دفتر مدرسہ قدیم (جو مظاہرعلوم کی سب سے پہلی عمارت ہے)کیلئے حضرت موصوف نے دس ہزارروپئے کی خطیر رقم حاصل کرکے مدرسہ میں داخل فرمائی ۔(روداد دارالعلوم دیوبند صفحہ۳۳-۱۲۸۴؁ھ ماہنامہ دارالعلوم دیوبند اپریل ۱۹۷۷ء؁
آپ نہایت درجہ کے شریف النفس،خلیق،شفیق،رفق ونرمی میں ممتاز ،سخاوت ودریادلی میں بیمثال امانت ودیانت کی باوقارہستی تھے،روزانہ نئی پوشاک زیب تن کرتے اور اتارے ہوئے کپڑے غریبوں کو تقسیم فرمادیتے تھے چنانچہ آپ کی مذکورہ بالاصفات وخصوصیات کی وجہ سے ہرشخص آپ کا گرویدہ اورمداح تھا۔زہدوورع،عبادت وریاضت اور خلوص وللٰہیت کے نیرتاباں تھے ،آپ کے تقوی وتقدس کے کئی واقعات زبان زد ہیں اور جن کا تذکرہ مظاہرعلوم کی رودادوں ،تاریخ مظاہرعلوم اور حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجرمدنیؒ کی آپ بیتی وغیرہ میں موجود ہے۔
ایک مرتبہ آپ فراہمی مالیات کے لئے کلکتہ تشریف لے گئے وہاں ایک ایسی جگہ گئے جہاں آپ کا کوئی جاننے والا تھا وہاں بھی چند ہ خوب ہوامگر جب آپ نے مدرسہ میں آمدوصرف کا حساب پیش کیا تو ایک جگہ تحریر تھا کہ کلکتہ میں فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک کا کرایہ نہ لکھاجائے کیونکہ وہاں مجھے ایک دوست سے ملنا تھا چندے کی نیت نہیں تھی اگرچہ کافی چندہ ہوا۱۶؎۔
اسی طرح ایک مرتبہ بنارس میں والیٔ ٹونک سے ملنے کے لئے تشریف لے گئے تو سفر خرچ کے حساب میں سہارنپور سے کانپورتک کا کرایہ نہیں لکھا وجہ یہ تھی کہ کانپورمیں ایک صاحب سے ذاتی ملاقات کی تھی،اہل مدرسہ نے کوشش کی کہ کرایہ لے لیں مگرحضرت نے واپس فرمادیا۱۷؎۔
ان دوواقعات ہی سے آپ کی متقیانہ حیات مبارکہ کی جھلک نظرآجاتی ہے۔آپ فرشتہ صفت انسان تھے جب تک حیات رہے طلبہ اور مدرسہ پراپنی دولت لٹاتے رہے،حسبۃً للہ تعلیم کے باوجود دوتین سوروپے سالانہ اپنی جیب خاص سے مدرسہ کو مرحمت فرماتے تھے،ہرسال نہایت وقیع علمی کتب سے بھی مظاہرعلوم کو نوازتے رہتے تھے اور طلبہ کا امتحان بھی بڑے اہتمام سے لیتے اور اپنی طرف سے نقدورقوم کے علاوہ کتابوں کی شکل میں انعام بھی دیتے ،چنانچہ کامیاب طلبہ کو بخاری شریف کے ۲۶اور ترمذی شریف کے ۶نسخے عطافرمائے تھے۸؎۔
حضرت محدث سہارنپوریؒ کے واسطہ سے فقیہ الاسلام حضرت مولانا سعادت علی ؒ فقیہ کا علمی خانوادہ بہت زیادہ وسعت پذیر ہوا،جس کی تفصیل استاذ محترم حضرت مولانا اطہرحسین صاحب مدظلہ استاذ مظاہرعلوم(وقف)کے مرتب کردہ’’شجرۂ سعادت‘‘میں مذکوہے۔
حضرت محدث سہارنپوریؒ کو دارالعلوم دیوبند سے بھی بہت محبت اور انسیت تھی جس کو آپ کے شاگردِرشید حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے ۱۵/محرالحرام ۱۲۸۳ھ؁ کو قائم فرمایا تھا،چنانچہ دارالعلوم دیوبند کی س سے پہلی عمارت ’’نوردہ‘‘کی بنیاد کے وقت سب سے پہلاپتھر حضرت محدث سہارنپوریؒ نے اپنے دست حق پرست سے رکھا تھا ،آپ کے بعد حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ،حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ،حضرت مولانا محمد مظہرنانوتویؒ نے ایک ایک انیٹ رکھی۹؎
دارالعلوم دیوبند کے اکابرکے رائے یہ تھی کہ شروع شروع میں دارالعلوم کو کچے مکان کی طرح بنایا جائے مگرحضرت محدث سہارنپوریؒ اپنی مؤمنانہ فراست اور دوراندیشی کی وجہ سے فرمایا کہ دارالعلوم پختہ تعمیر کیا جائے چنانچہ الحمد للہ اسی پرعمل ہوا۱۰؎۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت محدث علیہ الرحمہ نے اپنی حیات مبارکہ کے اکثر اوقات دینی خدمات میں صرف کئے چنانچہ درس وتدریس لے کر مدارس اسلامیہ کی امدادواعانت ،اکابر واسلاف کی تشریف آوری پران کی ضیافت ،طالبان علوم دینیہ کے قیام وطعام کی کفالت ،اصلاح معاشرہ کیلئے دوردراز کے اسفار اور دینی دعوت ،بدعات ورسومات کی بیخ کنی اور اکابر واسلاف کی زریں روایات کی حفاظت بیوائوں کا نکاح نہ کرنے کی رسم ورواج کو قوت وشدت سے مخالفت،اور مختلف لوگوں کو وعظ ونصیحت علمی دینی کتب کی تصنیفات وتالیفات اور ان کی طباعت واشاعت ہرمیدان میں اپنی ناقابل فراموش خدمات چھوڑی ہیں۔
ممتاز تلامذہ آپ کے ممتاز تلامذہ کی تعداد اتنی طویل ہے کہ اگر ان تمام حضرات کے صرف اسماء گرامی ذکرکئے جائیں تو رسالہ کے کئی صفحات ۷؎ بھرجائیں گے تاہم چند وتلامذہ جو اپنے وقت کے یگانہ روزگار اور علوم دینیہ کے بحرذخار تھے یہ ہیں طائفۂ دیوبند کے روحانی پیشواسید الطائفہ حضرت اقدس حاجی امداداللہ مہاجرمکیؒ ،امام ربانی حضرت مولان رشید احمد گنگوہیؒ ،حجۃ الاسلام حضرت مولاناقاسم نانوتویؒ،محدث کبیر حضرت مولانا احمد حسن امروہویؒ،فخر الاماثل حضرت مولانا مظہر نانوتویؒ،زبدۃ العلماء حضرت مولنامحمد یعقوب نانوتویؒ،حضرت مولانا محمد احسن نانوتویؒ، حضرت مولانا عبداللہ انصاری انبہٹویؒ،حضرت مولانا مولانا عبد العلی میرٹھیؒ،مناظراسلام حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ،(بانی ندوۃ العلماء لکھنؤ)،ادیب دوراں حضرت علامہ شبلی نعمانیؒ،حضرت مولانا مفتی عبد اللہ ٹونکیؒ،حضرت مولانا محمد سلیمان پھلواریؒ اور حضرت مولانا سید تجمل حسین بہاریؒ وغیرہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں جن میں سے ہر شخص اپنی ذات میں ایک انجمن کی حیثیت رکھتا ہے۔
۱۲۹۷ھ؁ کے اوائل کے میں حضرت مولانا محدث سہارنپوریؒ فالج کا شکار ہوگئے،سردرداور بخار بھی تیز ہوگیا چنانچہ عیادت کے سلسلہ میں حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒدس بارہ روز کیلئے سہارنپورتشریف لائے پھر واپس دیوبند۸؎ چلے گئے لیکن حضرت محدث سہارنپوریؒ کے مرض میں افاقہ کے بجائے اضافہ ہوتا چلا گیا چنانچہ اسی مرض میں ۶/جمادی الاولیٰ ۱۲۹۷ھ؁ مطابق ۱۷/اپریل ۱۸۸۰ء؁ شنبہ کے دن تقریباً بہتر (۷۲)سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا۔
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
آپؒ اپنے آبائی قبرستان متصل عید گاہ سہارنپور میں سپردخاک کئے گئے ۔
حضرت مولانا انعام الرحمان تھانوی نے’’ارمغان تخیّل‘‘میں مندرجہ ذیل تاریخ وفات تحریر فرمائی۔؎

حضرت الحاج مولانا سعادت علی ارجمند ٭ داشت بہرنشرعلم دیں چہ طبع دردمند
مولانا حاج حضرت احمد علی محدث ٭ سرخیل عالمانہ وشیخ الحدیث امجد
بودہ پئے مظاہرآں ذات چوں مؤسس ٭ اوہم باتدائش کارش نمود بیحد
درہندبارِاول باحسنِ حواشی ٭ کردہ حدیث طبع ازحق چوں شدمؤید
استاذ کل بدوراں آں مرجع افاضل ٭ چوں انتقال کردہ گردید زیب مرقد
انعامؔ بہر امرو فرمائش احباء ٭ سال عیسوی فوتش گفت از حساب ابجد
مولانا پاک جبہ احمد علی محدث ٭ درجلوۂ جناں شدازلطفِ ربِ اوحد
۸۷۶ ٭ ۱۰۰۴