mazahiruloom@gmail.com 9045818920

بانیان کرام

حضرت حافظ فضل حق سہارنپوریؒ

حضرت اقدس الحاج حافظ فضل حق ؒشہرسہارنپورکے صاحب ثروت،رئیس اورامیرالامراء تھے،ایک طویل عرصہ تک مظاہرعلوم سہارنپورکے سب سے پہلے محافظ مالیات تھے ،اپنی دیانتداری اورتقویٰ و پرہیزگاری کی بناء پر اپنے عہدزریں کے تمام اکابر کے پسندیدہ اورمحبوب تھے ۔
مظاہرعلوم سہارنپورکوموجودہ اورمحلہ میں لانے کیلئے حافظ صاحب نے بے مثال قربانیاں،محنتیں اوراُس زمانہ میں عوام کی مخالفتیں برداشت کرکے اوراپنی قیمتی زمین کا ایک حصہ مدرسہ کو وقف فرماکر فرماکریہاں منتقل کرایااسی کے ساتھ ایک بڑی رقم بھی مدرسہ میں جمع کرائی ۔
مظاہرعلوم کی موجودہ سب سے پہلی عمارت جو’’دفترمدرسہ قدیم ‘‘کے نام سے موسوم ہے اورعلیٰ حالہ برقرارہے ،اس کی تعمیر کے دوران آپؒنے بڑی لگن اورجانفشانی کے ساتھ معماروں اورمزدوروںسے کام لیاتھا ،بہ نفس نفیس تمام دن حاضررہ کرنگرانی وخبرگیری فرماتے تھے۔
اس زمانہ میں عمارت میں جوتیارشدہ مصالحہ استعمال ہوتاتھاوہ حافظ صاحب کی ذاتی دلچسپیوں سے آپ کے گھروں اوررشتہ داریوں میں تیارہوکرآتاتھا،گھرکی عورتیں بھی دن رات وہ مصالحہ پیس پیس کربھیجتی رہتی تھیں۔جومعمارحضرات ضرورت کی جگہوں پرصرف کرتے تھے۔
حضرت مولانا عنایت الٰہی سہارنپوریؒ جوبعدمیں مدرسہ کے ناظم ومہتمم بھی ہوئے آ پؒ کے معاون وشریک کاربن کر حساب وکتاب اورتعمیری اخراجات کی دیکھ بھال کرتے تھے ۔
چونکہ اس سے پہلے تک مدرسہ کرایہ کے مکانوں میں تھالیکن ۱۲۹۳ھ میں جب مدرسہ کی ذاتی عمارت مکمل ہوگئی تودیگرمخیرین کے علاوہ حافظ فضل حق صاحب ؒکوبھی بہت خوشی تھی ،چنانچہ آپ ؒنے اس پرمسرت موقع پرایک تقریب کاانعقادفرمایااورتمام شرکاء تقریب کی دعوت کی ۔
آپؒ حضرت مولانا محمد مظہرنانوتویؒ کے خصوصی رفیق ، دست راست ،معاون خاص،خادم وعاشق اورسچے جاں نثاروں میں سے تھے ،چنانچہ حضرت مولانا جتنی دیر تک درس دیتے یہ حاضر خدمت رہتے ،گرمیوں کے زمانے میں مولانا کے پاس بیٹھ کر مسلسل پنکھا جھلتے رہتے تھے ۔
حضرت مولانا خلیل احمدمہاجرمدنیؒنے آپؒ کی خدمات اورللہیت وخلوص کا اعتراف کرتے ہوئے ۱۳۱۴ھ میں مظاہر علوم سہارنپورکے جلسہ ٔ سالانہ میں فرمایا تھا کہ ’’مدرسہ کا شہر کے جنوبی کنارہ سے شمالی کنارہ میں منتقل ہونا علماء کے جانثار ،علم کے دلدادہ جناب حافظ فضل حق صاحب مرحوم خزانچی مدرسہ کا جذب طبیعت اوردلی کشش زبردست نہیں رکھتے تھے ۔مدرسہ کی تعمیر کے وقت اکثرحصہ زمین کا مدرسہ کو حافظ صاحب کا عطیہ ہے اورزر نقد سے بھی بہت کچھ امداد واعانت فرمائی‘‘ ۔
آپؒ چونکہ بزرگوں کے صحبت یافتہ ،حضرت مولانامحمدمظہرنانوتویؒ کی جماعت کے خصوصی فردتھے اس لئے ان حضرات کی صحبتوں سکاپوراپورااثرآپ میں ہونابدیہی امرہے ،یہی وجہ تھی کہ اعتماد ویقین اوراللہ کی ذات پر بھروسہ کرنے کی جو دولت حافظ محمد فضل حق صاحب کوعطاہوئی تھی اس کا اندازہ حضرت شیخ الحدیث مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒ کے تحریرفرمودہ اس واقعہ سے ہوتاہے جو’’ آپ بیتی جلددوم‘‘ میں موجودہے کہ
حافظ فضل حق صاحب میرے حضرت(مولاناخلیل احمدؒ)کے استاذشیخ المشائخ حضرت مولانامحمدمظہرنانوتویؒجن کے نام نامی پر مدرسہ کانام مظاہرعلوم رکھاگیا،ان کے بہت ہی جانثاراورمعتقدتھے،ان ہی کی کوشش سے مدرسہ قاضی کے محلہ سے جہاں ابتداء ًقائم ہواتھایہاں منتقل ہواجہاں اب ہے،حضرت مولانامحمدمظہرصاحب قدس سرہ کی خدمت میں ہروقت حاضررہتے ،گرمی میں کثرت سے پنکھاجھلتے، ان کا تکیہ ٔ کلام تھا’’اللہ کے فضل ‘‘سے ۔ہربات میں یہی کہاکرتے تھے کہ اللہ کے فضل سے یہ ہوا،اللہ کے فضل سے وہ ہوا۔
ایک مرتبہ حافظ صاحب نے حضرت مولانا محمد مظہر صاحب سے صبح کویہ عرض کیا ،حضرت جی! رات تو اللہ کے فضل سے اللہ کا غضب ہو گیا تھا ،حضرت قدس سرہ بھی یہ فقرہ سن کرہنس پڑے اوردریافت کیاکہ حافظ جی! اللہ کے فضل سے اللہ کاغضب کیاہوگیاتھا ؟انہوں نے عرض کیا کہ حضرت جی !رات میں سورہا تھااورمکان میں اکیلاہی تھا،میری جو آنکھ کھلی ،میں نے دیکھاکہ تین چارآدمی میرے کوٹھے کے کواڑکوچمٹ رہے ہیں ،میں نے ان سے بیٹھ کرپوچھاکہ ابے تم چورہو؟کہنے لگے ہاں ہم چورہیں! میں نے کہاسنو! میں شہرکے رؤسامیں شمارہوں اورمدرسہ کا خزانہ بھی میرے پاس ہے اوروہ ساراکاسارااسی کوٹھے میں ہے اوریہ تالاجواس کو لگ رہاہے چھ پیسے کاہے ،تمہارے باپ داداسے بھی نہیں ٹوٹنے کا،تم توتین چارہو،دس بارہ کواوربلالاؤ،اوراس تالے کوٹھوکتے رہو،یہ ٹوٹنے کانہیں،میں نے حضرت جی! (مولانامحمدمظہرنانوتویؒ)سے سن رکھاہے کہ جس مال کی زکوۃ دے دی جاوے وہ اللہ کی حفاظت میں ہوجاتاہے ،میں نے اس مال کی جتنی زکوۃ واجب ہے اس سے زیادہ دے رکھی ہے ،اس لئے مجھے اس کی حفاظت کی ضرورت نہیں ،اللہ میاں اپنے آپ حفاظت کریں گے ۔
حضرت جی !اللہ کے فضل سے میں تویہ کہہ کرسوگیا۔میں جب پچھلے پہرکواٹھاتووہ لپٹ رہے تھے میں نے ان سے کہا کہ ارے !میں نے تو پہلے ہی کہہ دیاتھا کہ دس بارہ کو اوربلالاؤ،یہ تالا اللہ کے فضل سے ٹوٹنے کا نہیں ۔
حضرت جی!یہ کہہ کرمیں تو اللہ کے فضل سے نمازمیں لگ گیااورجب اذان ہوگئی تومیں ان سے یہ کہہ کرکہ میں تونمازکوجارہاہوں تم اس کو لپٹتے رہو،پھرحضرت جی اللہ کے فضل سے وہ سب بھاگ گئے‘‘۔ (آپ بیتی جلددوم)
حضرت شیخ الحدیثؒ نے ایک اورجگہ رقم فرمایاہے کہ
’’جناب الحاج فضل حق صاحب جواعلیٰ حضرت مولانامحمدمظہرنانوتوی نوراللہ مرقدہ کے خادم خاص اورمظاہرعلوم کے محسن اعلیٰ تھے‘‘
صفرالمظفر ۱۳۰۲ھ میں آپؒ کا انتقال ہوا ،وصال کا سبب وہ زخم بنا جو گنا چھیلتے وقت آپ کے ہاتھ میں لگ گیا تھا ۔
حافظ صاحب مرحوم کے بارے میںجو تاثرات روداد مدرسہ میں شائع ہوئے وہ یہ ہیں ۔
اس سال میں چند حادثۂ عظیم مدرسہ ہذا پر بلکہ عام مسلمانانِ شہرسہارنپورپر ایسے واقع ہوئے کہ جن کے بیان سے بد ن کو رعشہ ہوتا ہے اورسننے والوں کو رونا آتا ہے ۔
اول واقعہ: حافظ محمد فضل حق صاحب خزانچی مدرسہ کا ہے کہ جن کی ذات خاص سے مدرسہ کے لئے بہت کچھ امداد واعانت تھی اورنیز کیا مدرسہ اورکیا مسجد اوردوسرے امورخیر ،ہر قسم کا روپیہ حافظ صاحب ممدوح کے پاس امانت اس خوبی سے رہتا تھا کہ جس وقت رات کو خواہ دن کو کوئی جزیا کل امانت طلب کرتا ، فوراًواپس حوالہ ہوتا تھا ،علاوہ بریں باوجود نہ ہونے زیادہ استطاعت کے خیر طبعی بہت تھی ۔اکثر طلباء خواستگار گرد ہی رہتے تھے اوربایں ہمہ بطورخاص ہروقت جان ومال سے مدرسہ خبرگیراں رہتے ، مدرسین اورطلبہ کو ان سے ہر قسم کی معاونت تھی ۔
مدرسہ کو ان کے انتقال سے ایک سخت مشکل یہ پیش آئی کہ تحویل دار مثل ان کے نظر نہیں آتا ،واقعی ایسا امانت دار ، دیندار خیر خواہ مسلمین ہونا بہت مشکل ہے ‘‘۔
حضرت مولانا فیض الحسن صاحبؒ ادیب اپنے ماہنامہ اخبار شفاء الصدورمیں حضرت حافظ فضل حق صاحب کے حادثہ وفات کی اطلاع بڑے بلند اوروقیع الفاظ میں دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں ۔
’’وھکذا موت الحافظ فضل حق السھارنفوری فانہ کان جواداً کریماً امیناً متدیناً محباً للعلماء معاوناً لمدرسۃ السھارنفور۔
چندسطروں کے بعد مزید تحریر فرماتے ہیں ’’وبالجملۃ عاش ما عاش سعیداً ومات اذ مات حمیداً‘‘۔
حضرت حافظ فضل حق صاحبؒ کے انتقال کے بعد ’’مہتمم مالیات‘‘کے تقررکامسئلہ پیش آیا تو حضرت مولانا فیض الحسن ؒ نے اپنی مؤمنانہ فراست اور عارفانہ بصیرت سے حضرت حاجی الٰہی بخشؒ کونہایت موزوں سمجھاچنانچہ حاجی الٰہی بخش کو’’مہتمم مالیات‘‘کا عہدہ سپردکیاگیا(رودادمظاہرعلوم۱۳۲۱ھ؁)
۱۳۲۱ھ میں جناب حافظ الٰہی بخش صاحب موصوف کا بھی وصال ہوگیا تو مدرسہ کایہ عہدہ حاجی احمد جان صاحب کی طرف منتقل ہوا۔
حضرت حافظ فضل حقؒ کے صاحب زادگان میں دوحضرات کے اسماء گرامی آپ بیتی میں ملتے ہیں ایک حافظ زندہ حسن صاحب اوردوسرے حافظ الحاج شیخ حبیب احمدصاحبان یہ دونوں حضرات بھی والدماجدکے نقش قدم پرچلتے رہے،علمئا اوراکابرسے خصوصی تعلق رکھا،خیرکے کاموں میں حصہ لیتے رہے،حضرت گنگوہی اورحضرت مولانامحمدیحییٰ کاندھلویؒ سے خصوصی عقیدت ومحبت تھی،یہی وجہ ہے کہ جب حضرت مولانامحمدیحییٰ کاندھلویؒکاوصال ہوااورتدفین کے معاملہ میں عوام میں اختلاف رائے ہواتویہی صاحب زادگان اس بات پر مصرہوئے کہ چونکہ حضرت مولانامحمدیحییٰ کاندھلویؒ کا حضرت مولانامحمدمظہرنانوتویؒسے خصوصی تعلق تھا اورحضرت نانوتویؒقبرستان حاجی شاہ کمال میں مدفون ہیں اس لئے آپؒ کی تدفین بھی ان ہی کہ جوارمیں ہونی چاہئے چنانچہ یہی فیصلہ ہوااورحاجی شاہ میں تدفین عمل میں آئی ۔
جس طرح حافظ فضل حقؒنے مدرسہ کی سب سے پہلی عمارت دفترمدرسہ قدیم کے لئے زمین وقف فرمائی تھی ،آپؒ کے فرزندجناب حافظ زندہ حسنؒ صاحب مرحوم نے بھی مدرسہ کی دوسری سب سے اہم عمارت ’’دارالطلبہ قدیم‘‘کی تعمیرکے لئے سرائے کیدارناتھ میں واقع اپنی زمین مدرسہ کووقف کی تھی ۔