اولین اساتذہ
حضرت مولانا سخاوت علی انبہٹویؒ
مظاہرعلوم قائم ہواتوحضرت مولانا سعادت علی صاحب کے حکم پریکم رجب ۱۲۸۳ھ میں انبہٹہ سے یہاں تشریف لاکرتیرہ روپے مشاہرہ پراولین استاذ عربی مقررہوئے ۔جوطلباء پہلے مولانا سعادت علی ؒکے پاس پڑھ رہے تھے ان کے نحومیر کا سبق مولانا سخاوت علی ؒکے پاس شروع ہوا۔آپ ایک سال تک مدرسہ مظاہرعلوم کے استاذ رہکر ۱۲۸۴ھ میںمستعفی ہوئے ۔بعدازاں ۱۲۸۸ھ میں دوبارہ مدرس فارسی مقررہوئے ۱۲۸۹ھ میں پھراستعفاء دیکراپنے وطن انبہٹہ چلے گئے اور وہیں درس و تدریس میں مشغول ہوگئے ۔
آپ نے مظاہرعلوم کے زمانۂ قیام میں بڑی جانفشانی وتندہی کے ساتھ طلباء کو پڑھایا اور ان پرمحنت کی۔
رودادمدرسہ میں مولانا کی اس تعلیمی جانفشانی اورحسن وخوبی کو اس طرح سراہاگیا ہے :
’’حسنِ کارگزاری عالم فاضل مولوی سخاوت علی صاحب مدرسہ مدرسہ ہٰذا ہرآئینہ قابل تحسین وآفریں ہے۔اس واسطے کہ یہ نتیجہ مولوی صاحب ممدوح کی توجہ دلی کا ہے کہ جوطلبہ میزان پڑھتے داخل ہوئے تھے وہ کافیہ پڑھتے ہیں اور جوشرح مأۃ عامل پڑھتے داخل ہوئے تھے وہ شرح ملاومیر پڑھتے ہیں۔ہماری دلی منشا ہے کہ اگر یہی توجہ صاحب موصوف کی تعلیم طلبہ میں رہی۔اوربفضلہ تعالیٰ زرچندہ کی ترقی ہوئی توضرورہم کو ایک ایسا وقت ملے گا جس میں انشاء اللہ تعالیٰ اضافہ تنخواہ موصوف کیا جائے۔
آپ اعلی حضرت حاجی امداداللہ مہاجرمکیؒ کے خلیفہ اورمجاز بیعت تھے۔
مولانا سعادت حسین بہاری
۱۲۵۸ھ میں آپ کی پیدائش کٹیہارضلع بہارمیں ہوئی، والدماجد کانام رحمت اللہ علی ہے،ابتداء میں کچھ روز اپنے علاقہ کے مختلف شہروں میں تعلیم حاصل کی ۔اس کے بعد جونپورمولانا مفتی یوسف ابن اصغر صاحب انصاری لکھنؤ کی خدمت میں حاضرہوکرتعلیم حاصل کرتے رہے۔بعدازاں مولانا نذیر حسین صاحب دہلوی کی خدمت میں پہنچ کر حدیث شریف پڑھی۔
۱۲۸۴ھ میں مظاہرعلوم سہارنپور کے استاذتجویدکئے گئے۔علوم عربیہ کی متوسط اوراعلیٰ کتابوں کا آپ نے یہاں درس دیا۔ماہ رمضان المبارک ۱۲۸۶ھ میں آپ مظاہرعلوم سے رخصت لیکراپنے وطن تشریف لے گئے ۔یہ روانگی مختصرمدت کے لئے تھی۔لیکن آپ کی والدہ محترمہ نے دوربارہ سہارنپور جانے کی اجازت نہ دی۔مولانا موصوف کی مظاہرعلوم میں آمداورپھر روانگی کی تفصیل درج ذیل الفاظ میں رودادمدرسہ میںبیان کی گئی ہے
مولوی سعادت حسین صاحب جومولوی سعادت علی مرحوم کے روبرومدرس مدرسہ کے مقررہوئے تھے اورکتب درسیہ معقول ومنقول آسانی سے پڑھاسکتے تھے باقتضائے آپ ودانہ تشریف لے گئے۔سبب یہ ہواکہ وہ رہنے والے صوبہ بہار کے تھے اور چند ماہ سے ان کو وطن جانے کا اتفاق نہ ہواتھا،رمضان المبارک کی تعطیل میں جووطن تشریف لے گئے تو ان کی والدہ محترمہ نے یہاں آنے کی اجازت بُعد مسافت کی جہت سے نہ دی۔بدیں وجہ بعض طلبہ بھی متفرق ہوگئے۔
۱۲۹۶ھ میں آپ حج وزیارت کے لئے تشریف لے گئے ۔واپس آکرمدرسہ عالیہ کلکتہ میں استاذمنتخب ہوئے۔حکومت برطانیہ نے آپ کو شمس العلماء کا خطاب دیا عمدہ اخلاق وبہترین عادات ،پاکیزہ صفات سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مالامال فرمایا تھا۔
اٹھارہ جمادی الاول ۱۳۶۰ھ میں آپ نے وفا ت پائی ۔
مولانا احمد حسن کانپوریؒ
بٹالہ ضلع گورداسپور (پنجاب) میں پیداہوئے وہیں آپ کانشوونماہوا۔حضرت مولانا لطف اللہ صاحب علی گڑھیؒ کے آپ خصوصی تلامذہ میں سے تھے ۔علم کا اکثر وبیشتر حصہ انہیں سے حاصل کیا ۔
۱۵/ذی الحجہ ۱۲۸۶ھ میں جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور کے لئے آپ کو منتخب کیاگیاپندرہ روپے مشارہ پرآپ یہاں استاذ دوم بنائے گئے۔شوال ۱۲۸۷ھ میں یہ کتابیں آپ کے لئے تجویز ہوئیں۔مشکوٰۃ شریف،شرح عقائد خیالی، سراجی ،توضیح تلویح ،میرقطبی،مخترالمعانی،اصول الشاشی،ملاحسن،میرزاہد رسالہ مع غلام یحیٰ ،وعبد العلی،حمداللہ،قاضی مبارک،میرزاہد،امورعامہ،برشرح مواقف تامقصد ثانی،صدرا،مطول، ملا جلال ،شرح وقایہ،کنزالدقائق،نورالانوار،حسامی ،شرح جامی،کافیہ۔
چندسال تدریسی خدمات انجام دینے کے بعدشعبان المعظم ۱۲۸۹ھ میں آپ مرض ہیضہ میں مبتلاہوگئے سلسلۂ درس باقی رکھنا مشکل ہوگیا تو وقتی طورپررخصت لیکرماہ رمضان ۱۲۸۹ھ میں اپنے وطن تشریف لے گئے ، شوال۱۲۹۰ھ میں آپ مظاہرعلوم تشریف لائے اورحسب سابق درس کاآغاز فرمایا۔
شوال ۱۲۹۴ھ میں آپ حج وزیارت کے قصد سے روانہ ہوئے جس کے لئے آپ نے مظاہرعلوم سے چھ ماہ کی چھٹی لی۔حضرت مولانا محمد مظہرنانوتویؒ،حضرت مولانا عنایت الٰہی سہارنپوریؒ،مولانا پیر محمد خاںؒ کی معیت میں یہ قافلہ حجاز کے لئے روانہ ہوا،حضرت مولانا احمدعلی ؒمحدث سہارنپوری اورمولانا امین الحق ابن سید فیض علی عظیم آبادی،(فاضل مظاہرعلوم) ان حضرات کے نائب بن کر اسباق پڑھاتے رہے ۔مدت تعطیل ختم ہونے سے پیشتر یہ حضرات حجاز سے واپس آگئے اوراپنے مشاغل علمیہ میں مصروف ہوگئے۔
حضرت مولانا احمد حسن صاحب کا قیام مظاہرعلوم میں ماہ شوال۱۲۹۷ھ تک رہا۔بعد ازاں آپ مدرسہ فیض عام کانپور چلے گئے۔
رودادمظاہرعلوم بابت ۱۲۹۷ھ میں اس روانگی کاتذکرہ ان الفاظ سے کیا گیا ہے کہ:
مولوی احمد حسن ؒمدرس دوم حسب استدعاء وروساء کانپورمدرسہ فیض عام کانپور میں شوال سنۂ حال میں بترقیٔ تنخواہ مدرس اول مدرسہ مذکورہ کے مقررہوئے،بعض اشخاص طالب علموں میں سے بھی جومولوی صاحب کے ساتھ مناسبت اور خصوصیت رکھتے تھے ۔ان کے ساتھ مدرسۂ مذکورہ میں چلے گئے۔(روداد مظاہرعلوم ۱۲۹۷ھ)۔
کم وبیش بارہ سال کے عرصہ میں آپ نے جلالین شریف ،بیضاوی شریف،ترجمہ قرآن شریف،مشکوٰ ۃشریف ،بخاری شریف ،مسلم شریف،ابودائود شریف ،ترمذی شریف،نخبۃ الفکر ،میبذی ،شرح جامی،کافیہ،ایساغوجی، ملاحسن، میرزاہد مع غلام یحیٰ میرزاہد ملاجلال،شخص بازغہ، شرح تہذیب ،بدیع المیزان،شافیہ، خلاصۃ الحساب ،قاضی مبارک،اقلیدس،رشیدیہ،قطبی،صدرا،تصریح،شرح چغمینی،مختصر المعانی،مطول،مسلم الثبوت، سراجی نفیسی ،شرح عقائد نسفی،سدیدی،مقامات حریری،سبعہ معلقہ،شرح مأتہ عامل،شرح حکمت العین،شرح مواقف اورمختصر الحساب وغیرہ کل انچاس کتابوں کا درس دیا۔
ان متنوع کتابوں کی تدریس سے آپ کے علم کی گہرائی وگیرالی اور پختگی کا اندازہ لگایاجاسکتاہے ۔
آپ نے تین حج کئے اورہرمرتبہ حرمین شریفین میں طویل قیام کیا۔مکۃ المکرمہ میں اعلی حضرت حاجی امداداللہ صاحب نوراللہ مرقدہٗ کے درست مبارک پربیعت ہوئے۔اوران ہی کے پاس رہ کر ان کے فرمان کے مطابق مثنوی رومی کی شرح لکھی ۔اس کے علاوہ تفسیر قرآن مجید،شرح حمد اللہ ،تنزیہہ الرحمن عن شائبۃ الکذب والنقصان ،افادات احمدیہ ،شرح ترمذی شریف،آپ کی علمی وتصنیفی یادگار ہیں ۔آپ اعلی حضرت حاجی امداداللہ صاحب نوراللہ مرقدہٗ کے خلیفہ بھی تھے۔
۳/ صفر المظفر۱۳۲۲ھ میں آپ کا وصال ہوابساطی قبرستان کانپورمیں ایک قبہ کے پاس آپ کی قبرہے۔
مولانا محمد صدیق
۱۲۸۶ھ میں آپ استاذ شعبۂ فارسی مقررکئے گئے۔مظاہرعلوم میں آپ کا قیام تقریباً ڈھائی سال رہا۔
مدرسہ کی رودادبابت ۱۲۸۷ھ میں حضرت مولاناصدیق احمدکے بارے میں درج ذیل تعریفی کلمات مرقوم ہیں۔
’’مولوی محمدصدیق صاحب مدرس سوم جامع مسجدضروریات علوم مدرسہ ہیں،امسال اپناکام بہت حسن تدبیرسے جیساکہ پسندیدہ طبائع مہتممان ہے انجام دیااورنتیجہً اپنی کارگزاری کا اچھی طرح سمجھ کرچندطلبۂ فارسی کو جوسال آئندہ میں قابل اعتبارتصور کی جائے گی اور اسی وجہ سے واسطے ۱۲۸۸ھ کے ایک سال کے لئے ارباب جلسۂ انتظامیہ نے بارہ روپیہ جوایک روپیہ ماہواری اضافۂ تنحواہ متصورہوکرملاکرے گاعطافرمائی‘‘
ربیع الثانی۱۲۸۸ھ میں آپ مستعفی ہوکرمیرٹھ چلے گئے اوروہاں درس وتدریس کا سلسلہ قائم کیا۔
جلالین شریف ،اصول الشاشی،سکندرنامہ،ابوالفضل ،عبد الواسع،پنج رقعہ،بہاردانش، انشائے منیر،کیمیائے سعادت،مبادی الحساب ،بوستاں ،یوسف زلیخا،بہارعجم،کافیہ انشائے خلیفہ،انشائے عجیب ،انشائے فیض رسالت،انواررسالت،انوار سہیلی،چہارگلزار،تحومیر،کافیہ،انشاء ،دلکشاء،میزان الصرف ،پندنامہ،خالق باری،مامقیماںمینابازار،چہارگلزار،حدائق العشاق،اخلاق محسنی،رقعات عالمگیری،قصائد عرفی،مرات البدائع ،منیۃ المصلی،ہدایۃ النحو،شرح مأتہ عامل،دستورالمبتدی اورپنج گنج جیسی اہم کتابیں یہاں قیام کے دوران پڑھائیں۔
ابتدائی طلباء
’’ہونہاربرواکے چکنے چکنے پات‘‘والی بات ہے،مظاہرعلوم اپنے قیام کے اول روز ہی سے علماء اور ہمدردان قوم وملت کی نظروں میں قابل اعتمادہوگیاتھاچنانچہ پہلے ہی سال۱۳۰طلبہ کا مدرسہ میں بغرض تحصیل علم داخل کراہل علم سے استفادہ کرنابڑی اہم بات ہے نیزاس پہلے سال کے طلباء میں بعض حضرات تو ایسے ہیں جوآگے چل کرعلم وعرفان کے میناراورفضل وکمال کے مضبوط ستون بنے چنانچہ مولانا حافظ قمرالدین سہارنپوریؒ،مولانا خلیل احمدانبہٹویؒ،مولانا عنایت الٰہی سہارنپوریؒ، مولانا مشتاق احمد انبہٹویؒ وغیرہ اپنی ذات میں انجمن بلکہ میرانجمن ثابت ہوئے۔حضرت مولاناخلیل احمدمہاجرمدنیؒ اور حضرت مولاناعنایت الٰہی سہارنپوریؒ چونکہ اس ادارہ کے ناظم ومہتمم رہ چکے ہیں اس لئے ان کے تفصیلی حالات ’’نظمائے مظاہرعلوم‘‘میں ملاحظہ فرمائیں۔یہاں مولاناحافظ قمرالدین اور مولانامشتاق احمدانبہٹویؒ کا ذکرخیرمختصراً کیا جاتاہے۔
حضرت مولانا حافظ قمرالدین سہارنپوری ؒ
حضرت مولاناقمرالدین سہارنپوریؒ ابتداسے ہی مظاہرعلوم میں داخل ہوگئے تھے اورنحومیر وغیرہ میں حضرت مولانا عنایت الٰہی ؒکے شریک درس تھے۔۱۲۸۹ھ میں کتب حدیث میں سے بخاری شریف ،ابودائود شریف اور علم فقہ میں سے درمختار پڑھی ،اور فراغت سے دوسال قبل یعنی ۱۲۸۷ھ میں تین روپے مشاہرہ پرمدرسہ میں شعبۂ قرآن مجید کے استاذ مقررہوگئے۔گویا ایک ہی وقت میں استاذ بھی تھے اور شاگردبھی ،سہارنپورکی جامع مسجدکے بھی ایک طویل عرصہ تک امام وخطیب رہے۔رودادمدرسہ بابت ۱۲۸۷ھ میں آپ کے محاسن جلیلہ کا تذکرہ ان الفاظ کے ساتھ کیا گیا ہے :
حافظ قمرالدین صاحب مدرس چہارم مردمہذب خیرخواہ مدرسہ ہیں۔دوران سال ہٰذا مقررکئے گئے۔طلبۂ قرآن خواں کوپڑھاتے ہیں ہم سچے دل سے کہتے ہیں کہ امتشال امورمدرسہ میں مطیع ہیں۔
حافظ قمرالدین ؒکے جس تقررکا اس رودادمیں تذکرہ ہے ۔یہ زمانہ حضرت حافظ فضل حق ؒکی نوعمری اورابتدائی تقررکاہے لیکن اس کے بعد حافظ صاحب اجل مشائخ اورمدرسہ کے روح رواں بن گئے تھے کہ شہر اوردیہات کا چندہ جمعہ کی نماز کے بعد سے لیکرعصرتک جامع مسجد سہارنپور میں حضرت ہی وصول فرمایا کرتے تھے۔
مظاہرعلوم کے ابتدائی دورمیں اس کے لئے چندہ کی فراہمی اندرون شہرسے ہی ہواکرتی تھی ۔پہلی مرتبہ ۱۳۱۵ھ میں اخراجات ومصارف کی زیادتی کی وجہ سے اس کی ضرورت پیش آئی کہ چند اندرون شہر کے علاوہ بیرون سے بھی کیا جائے۔اس سلسلہ میں مدرسہ کے جواساتذہ تحصیل چندہ کی غرض سے باہرگئے ان میں حافظ صاحب مرحوم ومغفور بھی تھے۔
آپ حضرت اقدس مولانا خلیل احمد ؒ کے اجل خلفاء میں سے بھی ہیں اورحضرت مولاناعاشق الٰہی میرٹھی ؒکے گمان کے مطابق امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے بھی آپ مجازتھے۔
حکیم الامت حضرت اقدس مولانااشرف علی تھانویؒ نے اپنی وصایا میں جن معتمدومعتبر مشائخ سے بیعت کرنے کا مشورہ دیا ہے ان میں حضرت مولانا حافظ قمرالدین صاحب کا اسم سامی بھی موجود ہے (تنبیہات وصیت صفحہ ۱۷)
۱۳۱۳ھ اور ۱۳۳۴ھ میں دوبارحج کیلئے تشریف لے گئے دوسرے سفرمیں حضرت مولانا عبداللطیف ؒپوقاضویؒبھی آپ کے رفیق تھے۔ تکبیر اولیٰ کاخاص اہتمام فرماتے حتی کہ اپنی زندگی کی سب سے آخری نماز،عشاء بھی صف اول میں پہونچکر پڑھی۔جب امامت سے باکل معذور ہوگئے تو حضرت مولانا محمدالیاس کاندھلویؒ استادمظاہرعلوم کی نیابت میں امامت کے لئے جامع مسجد تشریف لے جایا کرتے تھے۔
۲۷/محرم الحرام۱۳۳۴ھ مطابق ۱۵/دستمبر ۱۹۱۵ء میں آپ کا وصال ہوا۔
روداد مدرسہ میں حافظ قمرالدین صاحب مرحوم کی مختصر تاریخ حیات اورکیفیت وفات ان الفاظ میں تحریر کی گئی ہے۔
’’اس دردناک واقعہ کا اہل مدرسہ کو ہی نہیں بلکہ تمام اہل شہر اورقرب ونواح کے مسلمانوں کو سخت صدمہ ہے۔کیونکہ ایسے بابرکت اہل خیر بزرگ اب نادرالوجودہیں۔حافظ صاحب مرحوم اس مدرسہ کے سب سے پہلے اور اس زمانہ کے طالب علم تھے۔جب کہ حضرت مولانا مولوی قاری سعادت علی صاحب فقیہ سہارنپوری نے یہ مدرسہ رجب ۱۲۸۳ھ میں قائم فرمایا تھا۔اول حافظ صاحب کو حضرت مولانا موصوف نے عربی شروع کرائی تھی اورجب چندہ کے لئے مولانا صاحب اہل شہر کے پاس تشریف لے جاتے تو حافظ صاحب برابر حضرت کے ہمراہ ساعی چندہ رہتے تھے۔بعد وفات مولانا مرحوم کے بھی ہمیشہ تاآخروقت مدرسہ کے لئے ہرقسم کے ساعی وہمدرداور خیرخواہ رہے۔علاوہ اس کے حافظ صاحب ایک متقی،متبع سنت اور عالم باعمل تھے۔اتباع سنت کی یہ کیفیت تھی کہ باوجودسخت معذوری کے جب اپنے اختیار سے ہاتھ اٹھانادشوارتھا۔جماعت ایک وقت بھی ترک نہیں ہوئی۔چنانچہ آخری نماز بوقت عشاء باجماعت پڑھکر تہجد کے وقت انتقال فرمایا۔(روداد مظاہرعلوم ۱۲۸۷ھ و۱۳۳۴ھ )
مولانا مشتاق احمد انبہٹویؒ:
آپ کے والد ماجدکانام مخدوم بخش ابن نوازش علی ہے۔۱۲۷۳ھ میں انبہٹہ میں آپ کی پیدائش ہوئی۔مولانا سدیدالدین دہلویؒ،مولانا سید محمد علی ؒچاندپوری آپ کے اساتذہ میں ہیں۔
حضرت مولانا سعادت علی سہارنپوری بانیٔ مدرسہ اور حضرت مولانا محمد مظہر نانوتویؒ سے بھی آپ کو شرف تلمذحاصل ہے۔مظاہرعلوم کی اولین رودادبابت ۱۲۸۳ھ کی فہرست تلامذہ میں آپ کانام ملتا ہے نیز اس سال کے امتحان سالانہ میں آپ کو مدرسہ کی جانب سے شرح جامی انعام میں دئیے جانے کا بھی تذکرہ ہے۔
حدیث شریف میں آپ کے استاذ قاری عبد الرحمن پانی پتی ؒہیں،آپ کو شیخ محمد صابر علی صاحبؒ چشتی صابری سے اجازت وخلافت حاصل تھی ۔محرم الحرام ۱۳۶۰ھ میں آپ کا وصال ہوا۔
حضرت مولانا عنایت الٰہی سہارنپوریؒ
آپ کے والد ماجد کا نام مولانا بخش اورداداجان کا نام مخدوم بخش تھا آپ نے قرآن کریم کی تعلیم مدرسۃ القرآن گنگوہ میں حاصل کی پھر فارسی اور عربی کی ابتدائی کتابیں سہارنپور میں مختلف اساتذہ سے پڑھیں ،آپ مظاہرعلوم کے اولین طلبہ میں سے ہیں ۱۲۸۴ھ میں مظاہرعلوم میں داخلہ لیکر اپنی تعلیم کا آغاز کیا ،حضرت مولانا سعادت علی ،حضرت مولانا سخاوت علی ،حضرت مولانا احمد حسن اور حضرت مولانا صدیق احمد وغیرہ حضرات آپ کے استاذ ہیں۔
تفصیلی حالات کیلئے’’نظماء مظاہرعلوم‘‘پرکلک کریں
حضرت مولاناخلیل احمدانبہٹویؒ
حضرت مولاناخلیل احمدمحدث سہارنپوریؒ کے والدماجدکا نام شاہ مجیدعلی ؒؒتھا،۱۲۶۹ھ کو اپنے نانیہال نانوتہ میں پیداہوئے ،ابتدائی تعلیم اپنے وطن انبہٹہ اورنانیہال نانوتہ میں حاصل کی،میزان ،صرف میر،پنج گنج وغیرہ کتابیں اپنے چچامولاناانصارعلیؒ کے پاس گوالیرمیں پڑھیں پھروطن واپس تشریف لے آئے اورحضرت مولاناسخاوت علی ؒسے کافیہ تک کی تعلیم حاصل کی۔
۱۲۸۳ھ میں دارالعلوم دیوبندقائم ہواتووہاں تشریف لے گئے اورکافیہ کی جماعت میں شریک ہوئے مگرصرف چھ ماہ کے بعدمظاہرعلوم سہارنپورتشریف لے آئے اوریہاں تمام درجات کی حدبندی ہوجانے کے باعث مختصرالمعانی کی جماعت میں شامل ہوگئے ،مختلف درجات کی تعلیم کے حصول کے بعد۱۹/سال کی عمرمیں۱۲۸۸ھ کو فارغ ہوگئے ۔
فراغت کے بعدمظاہرعلوم ہی میں تقررہوگیا،درمیان میں کچھ عرصہ حضرت مولانافیض الحسنؒ ادیب سہارنپوریؒ کی حذمت میں لاہورتشریف لے گئے چنانچہ آپ کو عربیت میں اختصاص پیداہوگیا۔وہاں سے واپسی کے بعدکئی جگہوں پر علمی وتصنیفی مشاغل انجام دیکر۱۳۱۴ھ میں حضرت گنگوہیؒ کے حکم کی تعمیل میں مظاہرعلوم سہارنپورتشریف آوری ہوئی اورمختلف علوم وفنون کی کتب پڑھانے کے علاوہ کتب حدیث کابطورخاص درس دیا،آپ فتاویٰ بھی تحریرفرماتے تھے اورمدرسہ کاتعلیمی وانتظامی کام بھی دیکھتے تھے ۔آپ کے دورمیں مدرسہ نے قابل رشک ترقی کی،کتب خانہ میں کتابوں اورمخطوطات ونوادرات کے علاوہ ہردرجہ اورشعبہ میں ترقیات ہوئیں۔
’’فتاویٰ خلیلہ‘‘آپ ؒ کے ان فتاویٰ کا وقیع مجموعہ ہے جوآپ نے دارالافتاء کی مسندسے تحریر فرمائے، اِس کتاب کے کئی ایڈیشن ہندوستان اورپاکستان سے شائع ہوچکے ہیں۔
۱۳۴۴ھ میں مدینہ منورہ میں مستقل قیام کی نیت سے ہجرت فرماگئے چنانچہ آپ ؒ کی معرکۃ الآراء تصنیف ’’بذل المجہود‘‘وہیں مکمل ہوئی ۔
۱۵/ربیع الثانی ۱۳۴۶ھ کومدینہ میں انتقال ہواوروہیں جنت البقیع میں تدفین ہوئی۔
(تفصیلی حالات کیلئے ’’نظمائے مظاہرعلوم ‘‘پرکلک کریں)