پس منظر
پش منظر مظاہر علوم سہارنپور
شہر سہارنپورہندوستان کے ان شہروں میں ہے جو اپنے عظیم الشان علمی وعرفانی قومی اورملی کارناموں کے باعث نہایت ہی ممتاز ومعروف ہیں یہ شہر اپنے دور تاسیس کے آغازسے لے کر آج تک علوم وفنون اورایمان وعرفان کا مرکز رہا ہے ۔
حضرت شاہ ہارون چشتی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۸۱۲ھ)اس کے مؤسس وبانی ہیں اورانہیں کی نسبت سے اس کا نام پہلے شاہ ہارون پورہوا تھا جو بعد میں کثر ت استعمال سے سہارنپورہوگیا ،۷۲۶ھ میں بعہدشاہ محمد بن تغلق یہ شہر آباد ہوا ،اس دورمیں علوم وفنون کی طلب کا ایک مخصوص ماحول تھا اورہر صغیر وکبیر اپنے دل میں جذبۂ طالب علمی مستوررکھتا تھا خود بادشاہِ وقت عالم وفاضل تھا ،معقولات میں اس کو خصوصی دستر س حاصل تھی ، اہل عل اوراہل کمال کا نہایت دلدادہ اورقدردان تھا ،چارچارلاکھ روپیہ بمدانعام اہل علم کو دے دینا اس کے لئے معمولی بات تھی عرب سیاحوںکے بیان کے مطابق صرف دہلی میں ایک ہزار مدرسے تھے اورمشہورعلماء اورشعراء اس کے دربارمیں موجود تھے جن کی علمی کاوشوں نے اس دور کو بڑی رونق بخشی تھی۔
مولانا معین الدین عمرانی مولانا ضیاء الدین بخشی (متوفی ۷۵۱ھ)مولانا احمد تھانیسری (متوفی ۸۲۰ھ) مرید حضرت چراغ دہلوی (متوفی ۷۵۷ھ)مولانا خواجگی (متوفی ۸۱۹ھ)مولانا علیم الدین مصاحب خاص اسی دورکے مشہور اہل علم اورناموراہل تصنیف ہیں مورخین میں مولانا ضیاء الدین برنی (متوفی ۷۳۸ھ) عصامی اورشعراء میں مطہریوسف گدا چشتی (متوفی ۷۴۶ھ)وغیرہ امتیازی شان کے مالک تھے ۔
اسی زمانہ میں ممالک اسلامیہ سے علماء ومشائخ بکثرت ہندوستان آئے ،امام مجد الدین فیروزآبادی مصنف قاموس اورامام عبد العزیزاردبیلی کی تشریف آوری اسی دورمیں ہوئی اورمؤخرالذکرنے دربارشاہی میں احادیث نبوی بھی بیان کیں۔
انہیں ایام میںحضرت شاہ ہارون چشتی کے علاوہ قصبہ اوچ (بلقان)سے حضرت شاہ ولایت سید شاہ اسحق سہروردی (متوفی ۸۶۰ھ)جو اپنے ماموں سید راجوقتال (متوفی ۸۲۷ھ)کے خلیفہ تھے سرزمین سہارنپورمیں تشریف لائے اوریہاں آکر انہوں نے سلوک وتصوف اوردرس وتدریس کا ایک عظیم ترین حلقہ قائم فرماکر باشندگان سہارنپورکو علمی وروحانی طورپر فیضیاب فرمایا یہ حلقہ یہاں کا سب سے پہلا اوربنیادی حلقہ ہے جس سے سہارنپورکی علمی وروحانی تاریخ کا آغاز ہوتا ہے بعد کے دوسرے تعلیمی حلقے اورروحانی سلسلے اسی حلقہ کے خوشہ چین اوراسی کی مبارک علمی وروحانی سرگرمیوں کی پیداوار ہیں اس حلقہ کے عظیم الشان اہم اورممتاز ومعیاری ملی ودینی کارنامے تاریخ کے زریں ابواب ہیں۔
اس حلقہ سے نہایت جلیل القدر علماء ومشائخ وصوفیہ اوردیگر اہل کمال کی بڑی جماعت تیار ہوئی جس نے نہ صرف سہارنپورمیںبلکہ اس کے اطراف وجوانب میں علوم وفنون اورروحانیت کی شمعیںفروزاںکرکے سیکڑوںنفوس انسانی کے چراغوںکو روشن کیا اوران کے دلوں کے ٹوٹے رشتہ کو معبود حقیقی سے جوڑدیا،حضرت خواجہ سالار انصاری (متوفی ۸۶۶ھ)حضرت مولانا عبد الکریم قدسی (۹۰۹ھ)حضرت مولانا عبد الرزاق (متوفی ۹۲۴ھ)حضرت مولانا عبد العزیزصاحب (متوفی۹۱۶ھ)حضرت مولانا خواجہ عبدالباقی حضرت مولانا عبد الغنی صاحب قدس سرہٗ اسی جماعت کے ارباب تقدس میں سے چند مثالی افراد ہیں جو اپنے زمانہ میں علوم وفنون کے ماہر وامام اورسلوک وتصوف کے بڑے ممتاز ونامورمشائخ تھے جن کی تعلیم وتربیت حضرت شاہ ولایت سید اسحاق صاحب قدس سرہٗ کے علمی وروحانی آغوش میں ر ہ کر علم وعرفان کے اسی تاریخی حلقہ میں ہوئی تھی ۔
ان ہی حضرات کے فیض صحبت اورمساعی جمیلہ سے بعد کو سہارنپورمیں علمی وروحانی عروج وارتقاء ہوا جس کے نتیجہ میں یہاں قرناً بعد قرنٍ مسلسل بڑے بڑے اہل کمال اوراہل فضل پیدا ہوئے اوراس طرح یہ سر زمین ہمیشہ علماء مشائخ صوفیہ محدثین فقہاء مفسرین شعراء ادباء حفاظ وقراء کے وجود باجود سے آباد ومعموررہی،چنانچہ بعد کے علماء ومشائخ میں حضرت شیخ عبد الستارانصاری خلیفہ حضرت شاہ عبد القدوس گنگوہی (متوفی ۹۴۴ ھ یا ۹۴۵ھ) حضرت شیخ مصطفیٰ (متوفی ۱۰۰۰ھ)خلیفہ حضرت شیخ رکن الدین گنگوہی (متوفی ۹۸۳ھ) حضرت شاہ عبدالسبحان صبحی (متوفی ۱۰۸۹ھ)خلیفہ حضرت صادق گنگوہی (متوفی ۱۰۳۶ھ یا ۱۰۵۸ھ)سراج الہند حضرت مولانا شاہ بدیع الدین (متوفی ۱۰۴۲ھ)خلیفہ حضرت مجدداحمد سرہندی (متوفی ۱۰۳۴ھ)حضرت مولانا جمیل الدین نقشبندی (متوفی ۱۰۵۵ھ)خلیفہ حضرت شیخ بدیع الدین سہارنپوری حضرت بایزیدنقشبندی (متوفی ۱۰۰۱ھ) خلیفہ حضرت خواجہ معصوم سرہندی (متوفی ۱۰۷۹ھ)شیخ نورمحمد (متوفی ۱۰۹۱ھ)خلیفہ حضرت شاہ عزیز اللہ بن مولانا رکن الدین گنگوہی اورمحدثین میں حضرت شیخ رفیع الدین شطاری تلمیذمولانا عیسیٰ بن قاسم سندھی (متوفی ۱۰۳۱ھ) حضرت مولانا شیخ محمد بن عبد الرحمن تلمیذحضرت شیخ حیات سندھی مولانا وجیہہ الدین صدیقی، حضرت مولانا احمدعلی محدث مورخین میں مولانا محمد رضا مولانا محمد بقاء (متوفی ۱۶۸۰ء)مؤلف ’’مرآۃ جہاںنما ‘‘ فقہاء میں مولانا قاضی عصمت اللہ (متوفی ۱۰۳۹ھ)مؤلف حاشیہ شرح وقایہ وصاحب تصانیف مختلفہ مولانا محمد غوث صاحب مولاناحسام الدین مولف مرافض الروافض حفاظ وقراء میں حضرت مولانا عبد الخالق چشتی (متوفی ۱۰۲۰ھ) حضرت مولانا منورصاحب چشتی (متوفی ۱۰۱۷ھ)تلامذہ حضرت مولانا رکن الدین گنگوہی قدس سرہم ادباء وشعراء میں مولانا عبد الکریم (متوفی ۱۰۲۴ھ)صاحب دیوانِ فارسی ،مولانامقیم الدین صاحب ’’نشتر غم ‘‘مولانا حبیب الدین سوزاں تلمیذجناب غالب، حضرت مولانا فیض الحسن صاحب (متوفی ۱۳۰۴ھ)فیض ادیب سہارنپور، صاحب تصنیف کثیرہ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں جن کی علمی کاوشوں اورروحانی سرگرمیو ں کو سہارنپورکے علمی وروحانی ماحول میں بڑا دخل ہے ۔