mazahiruloom@gmail.com 9045818920

فکرلطیف

فکرلطیف

استاذ الاساتذہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید عبد اللطیف صاحب پورقاضویؒ شیخ الحدیث الجامعہ مظاہرعلوم سہارنپور
سبحان اللہ وبحمدہ والصلوٰۃ والسلام علی محمد رسولہ واٰلہ وصحبہ اما بعد!
۱۸۵۷؁ء میں ہندوستان پرانگریزوں نے مکمل غلبہ حاصل کرلیا اوران کے قدم یہاں مضبوطی کے ساتھ جم گئے تومسلمانوں کے سیاسی زوال وانحطاط کے ساتھ وہ ان کے دین مذہب اورروحانی زندگی پر بہت شدت کے ساتھ اثرانداز ہونے لگے ان کا اثرونفوذجسموں تک محدودنہ رہا بلکہ دلوں اور دماغوں کوبھی تسخیر کرنے لگا صدہا سال حکومت کرنے والی قوم اپنے خصائص اورروایات اورملی شعائر وعلامات کو نہ یہ کہ صرف نظرانداز کرنے لگی بلکی ان کی نقالی اور کورانہ تقلیدکوبھی سرمایہ افتخار سمجھنے لگی تو اس وقت ہندوستان کے بیدارمغزاہل حق علماء نے اس خطرے کے سد باب کے لئے جو بنیادی تدبیر سوچی وہ یہ تھی کہ سب سے پہلے مسلمانوں کو دینی تعلیم کی طرف متوجہ کیا جائے تاکہ وہ اسلامی فکروعمل کے صحیح نہج پرقائم رہتے ہوئے زندہ رہ سکیں چنانچہ علماء دین نے اپنی تمام ترتوجہ تعلیم پرمرکوز کردی اوراس مقصد کے لئے مدارس قائم کئے اوراس میں عربی کا وہ گراں نمایہ ’’درس نظامی‘‘جاری فرمایا جس سے بڑی بڑی عہد ساز شخصیات علم وفضل کے آسمان پرمہر وماہ ہوکرچمکیں معقول ومنقول کے اس جامع ترین نصاب کو جو بنیادی اہمیت حاصل ہے وہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے درست کہ اس میں موجود ہ زمانہ کے مقتضیات کے سبب بعض اذہان کی رعایت سے کچھ نئی چیزوں کا اضافہ کردیا جائے مگرحصول استعداد کیلئے یہ فی نفسہ ایک امرکافی ہے اور مختلف ادوارکاتجربہ اس سلسلہ میں شاہد عدل ہے لیکن ’’بعض روشن خیال علماء‘‘کی زبان سے یہ بھی بارہاسننے میں آیا کہ مدراس عربیہ کے نصاب تعلیم سے قدیم فلسفۂ یونان وغیرہ ایسی غیر ضروری چیزوں کو خارج کرکے ان کی جگہ جدید علوم عصریہ کو شامل کرنا چاہئے (بعض جگہ اس کا وقوع بھی ہوچکا ہے)یہ نظریہ کیسا ہے؟مولانا سید مناظر احسن گیلانی کے قلم سے ملاحظہ فرمائیے ۔مولانا موصوف’’نظام تعلیم وتربیت‘‘میں ایک جگہ فرماتے ہیں۔
’’مصیبت کا احساس سب کو ہے لیکن اس کا علاج کیا ہے؟کیا اسکولوں،اور کالجوں کے نام نہاد دینیات کے کورس کے اضافہ سے اس مصیبت کا خاتمہ ہوجائے گا یا پھرعربی تعلیم گاہوں میں انگریزی کی چند ریڈرس یا روشن خیال مولویوں کے نزدیک جس چیز کا نام سائنس ہے اس مولویانہ سائنس کی تعلیم کا دینی مدارس میں اجراء اس امرض کا علاج ہے؟میں اس کے متعلق ’’وفی الشمس مایغنیک عن زحل‘‘کے سواء اورکیا پڑھ سکتا ہوں’’عیاں راچہ بیاں‘‘جس سوراخ میں باربار ہاتھ دینے کے بعد بچھوئوں کے ڈنک کے سوااور کسی چیز کا تجربہ نہ ہوا ہواسی سوراخ میں باربار مسلسل ہاتھ دئیے چلے جانا اور تب نہیں تو اب کی جھوٹی امیدوں میں تسلی ڈھونڈنا کیا ایمانی عقل اس پرراضی ہوسکتی ہے؟
’’من جرب المجرب حلت بہ الندامۃ‘‘کے سواآزمائی ہوئی تدبیر وں کے آزمانے کا آخری نتیجہ اورکیا ہوسکتا ہے ؟مرض کے اسباب کی غلط تشخیص اوراسی غلط تشخیص کی بنیاد پرمریض کا جو علاج ہورہا ہے اہل بصیرت اس تماشہ کو تقریباً پون صدی سے دیکھ رہے ہیں‘‘
لیکن آج یہ گلہ ہے’’درس نظامی‘‘موجودہ زمانہ میں ناکافی ہے۔اس میں تغیر وتبدیل کی ضرورت ہے اور بعض جگہ اس کا وقوع بھی ہوچکا ہے لیکن مولانا گیلانیؒ کا ایک زبردست استشہاد ملاحظہ فرمائیے۔
’’نصف صدی گذشتہ میں غیر مقلدیت کا طوفان جب ہندوستان میں اُمڈاتو اس طوفان کے مقابلہ کے لئے احناف کی طرف سے جولوگ کھڑے ہوئے ظاہرہے کہ ان بے چاروں نے حدیث وہی مشارقی ومشکوٰتی طریقہ سے پڑھی تھی۔لیکن آستینیں چڑھا کر جب یہی لوگ میدان میں اترے تو کون نہیں جانتا کہ ان ہی میں مولانا احمد علی سہارنپوریؒ ،مولانا رشید احمد گنگوہیؒجیسے لوگ تھے اوران بزرگوں کے متعلق توکچھ کہابھی جاسکتاہے لیکن بالکلیہ جنہوں نے صرف درس نظامیہ والی حدیث سے زیادہ اور کوئی چیز اس فن میں استادوں سے نہیں پڑھی تھی مثلاً صاحب آثار السنن مولانا شوق نیمویؒ وغیرہ ان بزرگوں نے فن رجال،تنقید احادیث میں جن دقیقہ سنجیوں کی عملی شہادتیں پیش کی ہیں کیا اس کے بعدبھی اس کا کوئی انکارکرسکتا ہے کہ یہ چیزیں درس کی نہیں بلکہ مطالعہ ومزاولت سے تعلق رکھتی ہیں۔قدیم نظامی نصاب میں اصلاح کا دوسرا دعوی ان عملی دائروں کی طرف سے جو پیش ہوایا ہورہا ہے اورادب عربی(انشاء وتاریخ)کو اہمیت دی گئی شوربرپاکیا گیا کہ مسلمانوں کی آسمانی کتاب عربی میں پیغمبر کے ملفوظات اورپیغمبر کی سیرت عربی میں ہے ،مسلمانوں کا قانون اور ان کا اعتقا د وعملی دستور حیات عربی میں ہے،ان کی تاریخ ان کے سارے علمی کارنامے عربی میں ہیں لیکن قدیم نصاب میں اس کی اہمیت گھٹادی گئی،باورکرایا گیا کہ جدید عربی نصاب میں جوکتابیں نظم ونثریا متعلقہ فنون ادبیہ کی رکھی گئی ہیں ان کی تعلیم حاصل کئے بغیر نہ کوئی قرآن سمجھ سکتا ہے نہ حدیث نہ فقہ نہ تصوف نہ کلام وعقائد تقریبا پچاس سال سے اس کا بھی ہنگامہ برپاہے لیکن کیا یہی واقعہ ہے؟
اس کے جواب اوراس سلسلہ کے جملہ کلام کے تجزیہ کیلئے مدرسہ مظاہرعلوم سہارنپورکے سابق ناظم اعلیٰ حضرت مولانا الحافظ القاری المفتی السید عبد اللطیف صاحبؒ پور قاضوی کا ایک جامع ومانع خط ہدیۂ ناظرین کرام ہے ۔حضرت مولانا موصوف رسوخ فی العلم رکھنے والے ایک جامع ترین باکمال عالم اور ہندوستان وبیرون ہند کے بہت سے ممتاز علماء کے استاذ ہونے کی وجہ سے استاذالاساتذہ کا درجہ رکھتے تھے یہ خط گورکھپورکی انجمن اسلامیہ کے نام ہے اس میں آپ نے تمام پہلوئوں کو جانچ کرایک مدلل نقشہ پیش کیا ہے جودرحقیقت اس باب میں ایک اہم ترین دستاویز ہے

(سید عبد الرئوف عالیؔ دیوبند)

بگرامی خدمت جناب ناظم صاحب انجمن اجرائے مکاتب گورکھپور
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
اولاً عرصہ ہوا کہ گرامی نامہ بغرض استشارہ صادر ہوااورپھر اس کے جواب میں تاخیر ہونے کی بناء پر مکرریاددہانی کی غرض سے دوسرا گرامی نامہ موصول ہوکرباعث تقاضاہوا مگرکچھ تساہل طبعی کچھ کثرت کاروبار متعلقہ کا بہانہ سبب اس تاخیر کاہوا جس کی وجہ سے جناب کو دوسری مرتبہ تکلیف گواراکرنی پڑی بہرحال تکلیف انتظار کومعاف فرماتے ہوئے حسب ذیل معروض پرٹھنڈے دل سے غور فرمائیے۔
۱-جملہ تحریرات جناب سے ایک دس سوزی مسلمانوں اور اسلام کی حالت معلوم ہوکر اورآپ کے قلب میں جذبات اسلام کا موجزن ہونا باعث مسرت ہوا،اللہ تعالیٰ اس کا اجروثواب آپ کو عطا فرمائے۔
۲-ان جذبات کے ماتحت آپ مصلحین کا انتظام بذریعہ انجمن کرنا چاہتے ہیں جس کی بابت ایک نقشۂ نصاب بھیج کرآپ نے استشارہ مجھ سے فرمایا اورنقشہ کی خانہ پُری چاہی ہے۔
۳-اس نصاب کی یہ غرض تحریر فرمائی ہے کہ اس کو فارغ التحصیل درس نظامی وغیرہ حاصل کرکے مخلوق کے لئے شمع ہدایت ثابت ہوں اور صفات سلف غزالی وجنید،امام رازی،امام ابوحنیفہ ان میں رائج ہوں تاکہ عالم کی ہدایت مثل سلف کرسکیں یہ تمنا ایسی ہے کہ اس کا ہرمسلم کے قلب میں ہونا تقاضائے اسلام ہے۔
۴-جوکچھ جناب نے تحریر فرمایا ہے یہ جناب کے جذبات عالیہ کا تقاضہ ہے اب ہماری سنئے :
(۱)مسلمان کا ہرجذبہ احکام شرعیہ کے تابع ہونا چاہئے ارشادات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتحت ہرجذبہ کی تکمیل ہوسکتی ہے محض جذبہ کے ماتحت جملہ امور ناقض رہتے ہیں اور محض جذبات کی پابندی مثمر نہیں۔
(۲)حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات عالیہ جامع اورحاوی ہیں ،تغیرات عالم اورانقلاب دنیا کے ہرپہلو پرحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے روشنی ڈالی ہے۔ترقیٔ منزل کے اسباب کو ارشاد فرمایا ہے اول واوسط اورآخردنیا کی عمرکی کیفیت اجمالی یا تفصیلی کے تذکرے فرمائے ہیں احادیث مختلفہ وارشادات متفرقہ سے مفتش کو اس کا پتہ چلتا ہے جہاں خیرالقرون قرنی ارشاد وتبشیر ہے وہاں’’بدأ الاسلام غریباً وسیعودکما بدأ ‘‘کی بھی تنذیر ہے اور’’ثم یفشوالکذب‘‘بھی مذکورہے اور ’’خذوعنی خذوعنی‘‘کی جہاں تلقین ہے وہاں’’انی امرأ مقبوض والعلم سیقبض حتی یختلف انثنان ولایجد احدا ان یفصل بینھما‘‘کی بھی تہدید ہے اور’’حتی اذارأیت شخا مطاعا ودنیا موثرۃ وہومتبعاواعجاب کل ذی رأی برأیہ‘‘وغیرہ تنذیرات وتہدیدات ہیں۔
(۳)حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں کذب کا احتمال نہیں انکا وقوع برمحل لابدی ہے اور کوئی تدبیر وانتظام ا س کو نہیں روک سکتا ہے۔
(۴)یہ جملہ ارشادات متعلقہ انقلاب عالم مبنی برتخریف عالم ہیں اورآمدقیامت کا منشاء ہیں جو اصلی عقیدہ اہل اسلام کا ہے۔
(۵)یہی وجہ ہے خیر کی قلت اور شرکی کثرت کی۔
(۶)یہی وجہ سے کہ پہلے زمانہ میں اتحاد واتفاق کی اس قدر کوشش نہ تھی مگر یہ چیز موجودتھی اوراب لیڈر الگ شور مچا رہے ہیں۔انجمنیں الگ اس کی کوشش کرہی ہیں ۔نشرواشاعت بذریعۂ اشتہارات واخبارات علیحدہ ہے مگر اس چیز میں دن بدن تنزل اور کمی ہے بلکہ اختلاف اورنفاق کی خلیج وسیع ہوتی جاتی ہے اور ؎

’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی‘‘

کی مثل صادق آرہی ہے پہلے اس قدر اسباب ظاہری موجودنہ تھے اور مسبب موجود تھا اور اب اسباب ظاہری موجودہیں اورمسبب موجود نہیں یہ صریح ناکامی کی دلیل اورسعی کے حق میں مایوس کن سلسلہ ہے۔
(۷)اندریں صورت کوئی شخص سعی وہمت کرے تو کس بنیاد پراور حوصلہ بڑھائے تو کس منشاء پر؟بلکہ جس قدرتھوڑی بہت کامیابی ہوجائے اندریں حالات وہ بطور خرق عادت ہوگی اور اس کو بساغنیمت سمجھنا چاہئے ورنہ اگرموجودہ حالت سے قطع نظرکرکے تھوڑی بہت کامیابی کے غرہ پراپنی ہمت زائد ازقوت خرچ کردی جائے تو رہی سہی کامیابی بھی ختم ہوجاتی ہے اور’’کوّا چلاہنس کی چال اپنی بھول گیا‘‘کی مثل صادق آتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بہت سی انجمنیں شروع تو بہت قوت کے ساتھ ہوتی ہیں مگرچند ہی دن کے بعد ختم اور معدوم ہوجاتی ہیں اورعلیٰ ہذا آئے دن تحریکات کا سلسلہ شروع ہوتا رہتا ہے اورختم ہوجاتاہے ان وجوہات پرہرمحرک وساعی اگر غورکرے تو اس کو صحیح طریق کاپتہ چل سکتا ہے اورمعتدل شاہ راہ جوشریعت کا نصب العین ہے وہ کھل سکتا ہے کہ بغیر اس کے اختیارکئے کام نہیں چل سکتا اورراہِ مستقیم حاصل نہیں ہوسکتی اور نہ قلب کو سکون ہوسکتاہے کہ یہ بات گونا دراورکم ضرورہے مگرمعدوم نہیں کہ جس دن یہ چیز عالم سے معد وم ہوجائے گی عالم بھی معدوم ہوجائے گا جیسا کہ حدیث شریف سے ثابت ہے کہ’’اللہ تعالیٰ کا ذکرکرنے والا جب کوئی نہ رہے گا تو قیامت آجائے گی۔‘‘مگرہرزمانہ کا رنگ عمل پہلے سے بدلا ہوا ہے صحابہؓ کا رنگ اورتھا تابعین کا رنگ دوسرا ہوا بلکہ خود صحابہؓ کا رنگ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اورتھا اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد وہ نہ رہا جیسا کہ بعض صحابہؓ کی تصریح سے معلوم ہوتا ہے ۔الغرض تدریجی طورپر رنگ عمل میں فرق ضرورہے اوریہی فرق سبب ہوگا احکام شرعیہ کے فی الجملہ تبدل کا مگریہ تبدل ایسا ہو جیسا کہ کہاکرتے ہیں کہ پھونک پھونک کرقدم رکھنا اورچھلانگ مارنا جس کو کہتے ہیں وہ خطرناک ہے الغرض وہی اعتدال جس کا ذکرباربار پہلے آچکا ہے شرعاً اس تبدل میں بھی مطلوب ہے اور جب تک یہ اعتدال ملحوظ رہے گا۔اس وقت تک دنیا کا قیام رہے گا تو قیام وجود اس اعتدال کا سبب قیام دنیا ہے اورقیام دنیا دلیل وجود اعتدال ہے،زمانہ اس سے خالی نہیں،تتبع سے پتہ چل سکتا ہے’’من جدوجد‘‘ہاں یہ ضرورہے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا ہے اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے بُعد ہوتا جاتا ہے اسی قدر اس اعتدال میں کمی ہے اور عالم کے وجود میں خیرکی کمی محسوس ہوتی جاتی ہے چونکہ اعتدال بھی ایک’’کلی مشکک‘‘ہے ۔اسی تعادتِ اعتدال کے موافق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات صادرہوئے ہیں،ایک وہ زمانہ تھا کہ ماموربہ سے دسویں حصہ کو چھوڑدینا ہلاکی ارشادفرمائی تھی اور خود حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ہی ارشاد فرمایاہے کہ ایک ایسا زمانہ آئیگاکہ ماموربہ میں سے دسویں حصہ پرعمل کرنے سے نجات ہوجائے گی۔
ببیں تفاوت رہ ازکجاست تایکجا
خلاصۃ المرام یہ ہے کہ عالم کا نظام مقدر ہوچکا،تدبیر سے اس کی اصلاح ناممکن ہے البتہ اسباب کی مساعدت دلیل کامیاب ہونے کی ہے اور علامت موافقت تدیر باتدبیرہے اور عدم مساعدت اسباب دلیل ناکامی اورعلامت موافقت تقدیر با تدبیر ہے۔فی زماننا مختلف ادارے کام کررہے ہیں جن کا طرزِعمل اورہئیت ترکیبیہ علیٰحدہ علیٰحدہ ہے ایک علی گڑھ کالج ہے جس نے بالذات دنیا کی ترقی کا بیڑااٹھایا ہواہے دوسرا ادارہ ندوۃ العلماء کے نام سے ملقب ہے جس نے جمع بین الدنیا والدین کا دعوی کیا ہے اورنصاب تعلیم دین بھی رکھا ہواہے اس کی بھی تعلیم ہوتی ہے تیسری نوع کے دنیوی تعلیم کا سلسلہ ان میں قطعاً نہیں جس کی وجہ سے اہل دنیا کوشاں ہیں کہ ان میں بھی علوم دنیوی صنعت وحرفت وغیرہ داخل ہو۔اورخالص مذہبی نہ رہیں ان کی مثال مدرسہ دیوبند،سہارنپوراور امینیہ ومدرسہ عبد الرب وغیرہ ہیں،اگرچہ مذکورہ بالاہی مدارس مدعی ہیں کہ مسلمانوں کی تعلیم وتربیت اورہدایت کیلئے کھولے گئے ہیں مگر حسب مقولہ

غلط است انچیکہ مدعی گوید

مشک آنست کہ خودببوید نہ کہ عطاربگوید
جہاں درحقیقت مذہبی تعلیم ہوتی ہے وہ بھی آشکار اہے اورجہاں برائے نام مذہبی تعلیم ہے وہ بھی ظاہرہے مذہبی تعلیم کے آثار علیٰحدہ ہیں دنیوی تعلیم کے علیٰحدہ ہیں اور عین التباس واشتباہ کی گنجائش نہیں ہر ایک کاطرز عمل اور اس کے آثار خودبتاتے ہیں کہ کون سا راستہ اس نے اختیار کیا ہے لامحالہ ہرسمجھدار اورفہیم شخص معلوم کرلے گا کہ کس کے طرز عمل نے کیسے کیسے نمونے پیداکئے بس انہی کی تقلید سے کام چلے گا ۔اگرڈپٹی کلکٹری،حجی،مجسٹریٹی وغیرہ مقصود ہوتوعلی گڑھ کا طرز اختیار کرنا پڑے گا ۔اورشبلی نعمانی،سلیمان ندوی وغیرہم کا نمونہ ہے تو ندوۃ العلماء کا طرز اختیار کرنا ہوگا۔اوراگرمولانا محمد قاسم ،مولانا رشید احمد،مولانا اشرف علی ،مولانا خلیل احمدؒ وغیرہم جیسی ہستیاں مطلوب ہوں تو مدارس دینیہ کا طریق اوردیوبند وسہارنپور کی تقلید کرنا چاہئے۔
ابتدائی حالات ا ن کے بانیان کے جوکچھ تھے وہ ضرب المثل ہیں خود ان مدرسوں کی حالت جوکچھ تھی وہ بھی مشہور ہے،مکانات ان کے چھپرپوش تھے اگر چہ اب ترقی ہوکرپختہ مکانات اور کمرے ہوگئے ہیں۔مذکورہ بالا حضرات یہیں پیداہوئے اور یہیں تعلیم حاصل کرکے معلم بنے اور تمام دنیا میں ان کے فیوض پھیلے مدارس دینیہ جہاں بھی موجود ہیں وہاں کے معلم بلاواسطہ یا بابواسطہ انہیں دینی مدارس کے فیض یافتہ ہیں۔بہرحال یہ طبقہ ختم ہوامگر طرز عمل چھوڑگیا اور عملی زندگی کی طریق بتاگیا کہ اس گئے گزرے زمانے میں مسلمانوں کا اسلام کے طرز پررہنا ممکن ہے محال نہیں اورجدتوں اورختراعات سے بے نیازہ رہ کر بھی دین کی پابندی ممکن ہے پس جس شخص کی چشم بصیرت کھلی ہوئی ہے اس کے لئے راستہ باکل کھلاہوا ہے اور چشم عنادیاغافل کیلئے سب راستے بند ہیں۔

گرنہ بیند بروز شپرہ چشم چشمۂ آفتاب راچہ گناہ

فعین الرضاعن کل عیب کلیۃ ولکن عین السخط تبدی المساویا

لیکن جوشخص ایسے مراکز وں کی تقلید کرنا چاہے اس کیلئے ضروری ہے کہ ان کے مقاصد اوراصول وفروع پرمطلع ہونے کیلئے کچھ وقت اپنا خرچ کرے اور ان کے طرز عمل کو دیکھے اورمصارف کی نوعیت اورمعاملات کی کیفیت اورامانت اوردیانتداری کے حالات کی جانچ کرے،گھربیٹھے پوری کیفیت معلوم ہونا مشکل ہے تب اپنا رنگ ڈھنگ ان کے موافق بناسکتا ہے۔
صرف تحریرات کو دیکھ کرصحیح معاملات کااندازہ ناممکن ہے خلاصہ اورلب لباب یہ ہے کہ اپنی اصلاح اول اوردوسروں کی اصلاح بعد میں مقصود ومطلوب ہواور اخلاص نظر اولین ہوتب خود بخود انسان مصلح بن جاتا ہے اور اس کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ میں مصلح ہوں لیکن خودکی اصلاح پیش نظر نہ ہو اور اپنے عیوب سے چشم پوشی ہو اور دوسروں کی اصلاح پیش نظر ہویہ راستہ خطرناک ہے اور طے شدنی نہیں بلکہ
’’اوخویشتن گم است کرارہبری کند‘‘
کا مصداق ہے۔مصلح کیلئے ضروری ہے کہ اس کی صورت وسیرت قیودات شرعی کے ساتھ مقید ہواس کی کوشش ہوکہ میراہر معاملہ قواعد شرعیہ کے ماتحت ہوگواعلیٰ درجہ کی پابندی پیدانہ ہواور کوئی کوتاہی بھی رہ جائے مگر کوتاہی کا معترف رہے۔

اے برادربے نہایت درگہیست
ہرچہ بروے می رسی روے مایست

اسی کے ماتحت مسئلہ نصاب بھی ہے،مدارس دینیہ میں جونصاب مروج ہے وہ درس نظامی کے نام سے ملقب ہے اور اسی کو پڑھ کر رشیدؒوقاسمؒومحمودؒوخلیل ؒعالم کیلئے شمع ہدایت ہوئے اور اپنے شاگردکفایت اللہ ؒ،حسین احمدؒ،انور شاہؒ،شبیر احمدؒوغیرہ چھوڑگئے ۔اگریہ ہستیاں کچھ کمال رکھتی ہیں اور اہل کمال میں شمار ہونے کے قابل ہیں تودوسرے نصاب کی جستجویا اس پراضافہ یا اس کی اصلاح کی فکروخیال فضول ہے اور حق تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت کی بے قدری ہے۔
البتہ جن لوگوں کے نزیک یہ حضرات نااہل ہیں اور ان کا شمار اہل کمال میں نہیں ان کیلئے کسی دوسرے نصاب کی تلاش وغیرہ ٹھیک اوردرست ہے اس نصاب کی خوبی اور قوۃ مجملاً اس سے معلوم ہوتی ہے کہ تقریبا یک صدسال سے یہ نصاب رائج ہے اور تقریباً نصف صدی سے اس کی مخالفت بھی ہورہی ہے مگر آچ تک کوئی نصاب ایسا پیش نہیں کیا گیا جو اس کا مقابلہ کرسکے اور اس کو اس کے مقابلہ میں مقبولیت حاصل ہوسکے اور وہ نصاب بھی ایسا ہی مکمل ہواوراس کے کتب کے مصنفین لواعتبار اورمذہب کی پابندی حاصل ہوعلمی استعداد میں کافی مہارت رکھتے ہوں۔
ترتیب اس نصاب کی ہرفن میں استعداد پیداہونے کا موجب ہوجب اس سے فارغ ہوتو جملہ فنون معقول ومنقول سے مناسبت ہو اوراس نصاب کا فارغ شدہ جامع شخص ہو،مختصر مدت میں ہرفن سے مناسبت پیداہوجائے ۔یہی نصاب کے لوازمات ہیں اس نصاب نظامی کوایک صدی تجربہ میںآئے ہوئے گذرچکی ہے اب اگرکسی نصاب کو سوبرس کوئی شخص تجربہ میں لائے اوربالفرض یہی منافع اورثمرات پیداہوں تب صرف مساوات کے دعویٰ کا حق پیداہوگا چہ جائے کہ اس کوترجیح دی جائے۔
مگرقبل اس قدرمدت تجربہ کے کسی کو حق نہیں کہ اس نصاب کے عیوب بیان کرکے کسی دوسرے نصاب کو ترجیح دینے کی دعوت دے۔مگربات یہ ہے کہ کسی چیز سے فائدہ اٹھانے کے لئے ضرورت ہے محنت ومشقت برداشت کرنے کی اور اب عادت محنت ومشقت کرنے کی نہیں رہی،سارا عیب نصاب کی طرف منسوب کرتے ہیں ورنہ سہل صورت مقابلہ اروامتحان کی یہ ہے کہ دوشخصوں میں امتحان مقابلہ کرادیا جائے ،ایک فارغ شدہ اس نصاب کا ہواور دوسرا شخص فارغ شدہ دوسرے نصاب کا ،اب معلوم ہوجائے گا کہ کونسا نصاب کتنی استعداد پیداکرتا ہے؟
پس اگر آپ کو اپنی انجمن کے دس سالہ تجربہ سے کسی نصاب میں کوئی فائدہ معلوم ہواہواور طلبہ آپ نے مقررین ،مدرسین،عالمین پیداکئے ہوں یا توقع ہوتو اس کو بدستور جاری رکھئے آپ کا یہی دوام موجب ترقی کا بنے گا اوراگرابھی تک نہ ایسے لوگ پیداہوسکے ہوں اور نہ ایسی قوی امیدہوتو پھرحسب قواعد مدارس دیوبندوسہارنپور کا درس نظامی جاری کیجئے اورایک دوسفران مقامات کے کرکے طرز عمل یہاں کا دیکھئے پھراس کی تقلید میں اگر کامیابی نہ ہوتو الزام دیجئے ورنہ اضاعت وقت ومال ہے اور کوئی نتیجہ نہیں۔واللّٰہ اعلم وہوالموفق والہادی الی صراط مستقیم من یشاء یضللہ ومن یشاء یجعلہ علی صراط مستقیم۔

عبداللطیف
ناظم مدرسہ مظاہرعلوم سہارنپور
۱۳۵۵ھ