mazahiruloom@gmail.com 9045818920

اصل مقصدِ قیام

مظاہرعلوم کا اصل مقصدِ قیام

حضرت مولاناخلیل احمدمہاجرمدنیؒنے ایک موقع پرمظاہرعلوم کے بنیادی مقاصدپرروشنی ڈالتے ہوئے ارشادفرمایا کہ
حضرات!مدرسہ کی تعلیم سے اس غرض کاحاصل کرنا مقصود ہے جس کے لئے انسان اشرف المخلوقات بناکر پیداکیا گیا غالباً آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ وہ کون سی غرض ہے جس کے پورا کرنے کو انسان پردۂ عدم سے جلوہ گاہ وجود میں آیا ہے۔وہ عبادت ومعرفت الٰہی کی ایک عظیم الشان امانت ہے جس کے برداشت کرنے سے آسمان وزمین تک عاجزتھے مگر انسان نے اس کو برداشت کیا ؎

آسماں بارِ امانت نتوانست کشید
قرعۂ فال بنام من دیوانہ زدند
ڈرگئے ارض وسمابارِ امانت سے مگر
ہم سے دیکھا نہ گیا حکم آپ کا رسوا ہونا

ابتداء عالم سے اس وقت تک جس قدرانبیاء ورسل علیہم السلام آئے سب اسی امانت الٰہی کی یاد دہانی کرتے آئے یہاں تک کہ سب کے بعد سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشریف لاکر اس عالم کوآئینۂ حیرت بناکر دکھادیا کہ عبادت الٰہی اس کا نام ہے اورمعرفت خداوندی کے طریقے یہ ہیں جوکام آج تک کسی سے پورا نہ ہوا تھا آپ نے اپنے قول وفعل سے اس کی تکمیل فرمادی اور جب تک عرفات کے کھلے میدان میں لاکھوں مخلوق کو گواہ کرکے اپنے فرض منصبی کو باحسن وجوہ اداکردینے کا اقرارنہ لے لیا اس وقت تک دنیا کو اپنے انوار وتجلیات سے سرفرازفرماتے رہے،اسی وقت یہ فرمانِ الٰہی نازل ہوا الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناط انسان کی شرافت کا اصلی سبب اور اس کے اشرف المخلوقات ہونے کا حقیقی راز یہی عبادت ومعرفت الٰہی کی عظیم الشان دولت ہے جس کے برداشت کی قابلیت کا دعوی بجز انسان کے کسی نے نہیں کیا،اسی عبادت ومعرفت الٰہی کی تعلیم اس مدرسہ کی انتہائی غایت ہے کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق حق تعالیٰ شانہ کی عبادت ومعرفت کا سیدھا راستہ تمام عالم کو بتلایا جائے۔ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ مدرسہ کا ہرہرطالب علم اس غایت کو بخوبی انجام دے سکتا ہے اور نہ ایسا دعویٰ کوئی فردبشر کرسکے کیونکہ ع

اے ذوق ؔ اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے

دس لڑکے جوایک ہی ماں باپ سے ہوں خوبی صورت وسیرت میں یکساں نہیں ہوسکتے پھرآپ اس کے خواہش مند کیوں ہیں کہ ایک مدرسہ کے تمام تعلیم یافتہ(طلبہ) عبادت ومعرفت الٰہی کا حصہ مساوات کے ساتھ لئے ہوئے ہوں۔
حضرات! دینی مدارس کے طلبہ میں بھی مختلف درجے ہیں مگر وہ کامل النفوس حضرات بھی انہی میں ہیں جوجہل وکفرکی تاریک شب میں چودھویں کاچاند بنکر جلوہ دکھاتے ہیں،حکایت مشہور ہے کہ کسی بادشاہ کا موتی رات کے وقت کھوگیا تو اس نے حکم دیا کہ اس جنگل کے تمام سنگ ریزے جمع کرلئے جائیں کہ انہی میں سے وہ گوہر نایاب بھی دستیاب ہوجائے گا،اسی طرح طالبان علوم دینیہ کا ہرفرداس لحاظ سے قابل قدر ہے کہ شریعت مدرسہ کی روشنی کوچاردانگ عالم میں پھیلادینے والا شخص بھی انہیں میں مستور ہے۔

ایک اشکال اور اس کا جواب

بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ آج کل رازی وغزالی ،جنید وشبلی پیدانہیں ہوتے؟گویا درپردہ جماعت علماء پریہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنے مدارس کی تعلیم کو مکمل نہیں کرتے مگرہم اس سائل سے یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ آج کل قوائے جسمانیہ پہلے لوگوں کی طرح نہیں پائے جاتے ،پہلے زمانے میں زکام،نزلہ کو کوئی جانتا بھی نہیں تھا اورآج کل قریب قریب ہر شخص اس کا شکار ہے ۔بجز اس کے کہ یہ کہاجائے کہ ہرپچھلے زمانہ کی قوت کو پہلے زمانے سے تفاوت ہے بعینہ یہی جواب ہماراہے کہ پچھلے زمانہ کی عقل وفہم وقوت حافظہ کو پہلے زمانہ سے بہت کچھ تفاوت ہے اسلئے جس کثرت سے پہلے زمانہ میں لائق اقتداء علماء پیداہوئے تھے اب اس قدرنہیں ہوتے۔نیز یہ کہ دین کو دنیا سے ضد ہے(بلکہ دونوں سوکنیں ہیں)جس زمانے میں دنیوی ترقی کا چرچا ہوگا دینی ترقی اس میں کامل طورسے نہیں ہوسکتی ،اس زمانے میں دین کی طرف وہ توجہ نہیں جو پہلے زمانے میں تھی،شرفاء واغنیاء کی اولاد توعیش پرستی اور دنیاطلبی کی تعلیم حاصل کریں اورغرباء وپست ہمت لوگ علم دین کی طرف توجہ کریں پھررازی اورشبلی کہا سے پیداہوں؟

آخرت کی مسئولیت

حضرات! یہ قرآن وحدیث آپ کے ہاتھوں میں سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث ہے،اگر اس شافع محشر کے سامنے سرخ روہونا منظور ہے تو اس کی خدمت جس قد رہوسکے کیجئے ورنہ اس وقت کیلئے کوئی جواب سوچ لیجئے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا میدانِ حشر میں سامنا ہوگا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام حق تعالیٰ شانہ کے دربار میں عرض کرینگے یارب ان قومی اتخذوا ہٰذا القرآن مہجورا ،بارا لٰہ !میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑدیا تھا۔

(اقتباسات ازروداد مدرسہ مظاہرعلوم سہارنپور ۱۳۳۵؁ھ )

گزارش

یہ گزارش ہے کہ مدرسوں کو اور جملہ طالب علموں کو یہ بات یادرہے کہ چندہ گزاران کی غرض مدرسہ(مظاہرعلوم)بنانے اور طالب علموں کے کھانا دینے اور مدرسوں کے مقرر کرنے سے صرف دینیات کی ترویج واشاعت اورمنقولات کا پھیلانا مدنظر ہے جو اس زمانے کے مدارس میں فروگزاشت ہوگیا اورہوتا جاتا ہے توچاہئے کہ علوم دینیہ کومقصود اصلی جانکر تحصیل کریں ورنہ مدرسوں کی اوقات ضائع ہوگی اور چندہ(دینے)والوں کی غرض حاصل نہ ہوگی۔ ؎

ترسم نرسی بکعبہ اے اعرابی
کیں رہ کہ تومیروی بترکستان ست

(کیفیت مدرسہ عربی سہارنپور بابت ۱۲۹۱؁ء )

مدرسہ کا نصب العین

مدرسہ کا سب سے اہم مقصد علوم دینیہ کی تعلیم ہے،مدرسہ کی غرض اور واقفین ومعاونین مدرسہ کے اوقاف وعطایا اسی غرض کیلئے مدرسہ میں آئے ہیں۔مدرسہ کی پچھتر سالہ روایات اس کا بین ثبوت ہیں،مدرسہ اورارباب مدرسہ ہمیشہ تمام گروہوں اور جماعتوں سے الگ رہے ہیں ،مدرسہ کا تعلق کسی خاص گروہ سے نہیں ہے،مدرسین مدرسہ کو اپنے اسلاف کی روایات کا اتباع لازمی ہے اور ان کے فرائض میں یہ چیز داخل ہے کہ مدرسہ میں رہتے ہوئے وہ کسی ایسی تحریک میں حصہ نہ لیں جو مسلمانوں میں افراتفری کا باعث ہویا اس سے مدرسہ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔اس مدرسہ کے طلباء کیلئے بھی یہ لازمی ہے کہ وہ مدرسہ کے اصول اورنصب العین کے مطابق اپنے تعلیمی مشغلہ میں دلچسپی کے ساتھ مشغول رہیں،ہمارا تجربہ ہے کہ جولوگ طالب علمی کے زمانہ میں سیاست میں حصہ لیتے ہیں وہ اپنے اصلی مقصد میں ناکام رہتے ہیں۔
یہ مدرسہ ایک (خالص)دینی مدرسہ ہے،اس کے طلباء کے لئے لازمی ہے کہ وہ اس کے آئین اوراغراض ومقاصد کے خلاف کوئی کام نہ کریں،ان کو وضع قطع ،لباس اور طرز معاشرت میں اپنے اسلاف کا اتباع کرنا چاہئے۔

(ازقلم مفتی مظاہرعلوم حضرت مولانا قاری سعید احمد اجراڑویؒ مخطوطہ ۱۳۵۸)

طریقۂ تدریس

اکابرمظاہرعلوم عبارت کتاب کو حل کرنے اورنفس مضمون کو دل نشین کرنے پرزیادہ زوردیتے،درس کے دوران مختلف فیہ مسائل کی تشریح وتعبیر نہایت سادہ الفاظ اور آسان زبان میں فرماتے اور اصل مقصد متن کی تفہیم کے بعد شراح کی مختلف توجیہات میں ملخص طورپر جامع توجیہہ آخرمیں بیان فرماتے جوسب سے زیادہ معقول ہوتی اس طریقۂ تعلیم سے نفس مضمون اورخلاصۂ مطلب طلباء کو بخوبی ذہن نشین ہوجاتا۔(مظاہرعلوم کے بنیادی مقاصد)

امتیازات و خصوصیات


جن کی بناء پر یہاں کی تعلیم وتربیت اورانتظام دوسرے مدارس سے ممتاز رہا!
(۱)مظاہرعلوم کا مذہب ومسلک ومشرب :سنیت وحنفیت اورچشتیت ہے۔
(۲)شریعت وطریقت کی جامعیت اورذکرالٰہی وفکر باطنی کا اہتمام والتزام ہمیشہ معمول اکابرمظاہرعلوم رہا ہے۔
(۳)مؤسسین مظاہرعلوم ،اس کے اولین سرپرستان اور مہتممین ومنتظمین نے مدرسہ کو ملک خداوندتعالیٰ اور خالص مذہبی بنایا اور اسی طرز پراس کو باقی رکھنے کی کوشش کی۔
(۴)معمولی تنخواہوں پرقناعت کرنے والے مخلصین ملازمین رہے۔
(۵)تعلیم وتربیت اورتزکیۂ نفس کے ساتھ دعاۃ ومبلغین اسلام کی تیاری۔
(۶)سرپرستان ،نظماء ومہتممان اورمدرسین عظام عموماًاسی مادرعلمی مظاہرعلوم کے افاضل مقر رکئے جاتے رہے ہیں۔
(۷)دین حق کے بارے میں اکابرمظاہرعلوم ہمیشہ باغیرت وحمیت رہے ہیں۔
(۸)امور سیاست مروجہ سے متعلق مظاہرعلوم کا طرۂ امتیاز شروع سے یہ رہا ہے کہ یہاں سے وابستہ رہتے ہوئے سیاست کے بارے میں قلم اور قدم ہرگز نہیں اٹھایا گیا۔
(۹)مظاہرعلوم کے ناظم ومہتمم ،مفسر ومحدث اورفقیہ وصوفی ،مدرس ومنتظم جامع قسم کے حضرات مقررکئے گئے ۔
(۱۰)مدرسہ مظاہرعلوم سہارنپور صرف اور صرف احیائے علوم دینیہ اوراشاعت سنت نبویہ کے لئے ہی قائم کیا گیا تھا جس کے بانیان ،سرپرستان،نظماء اور متعلقین ومعاونین کو اصل سرمایہ توکل علی اللہ تھا اور مدرسہ کا ازابتداء تحفظ اور اس کی بقاء اللہ جل شانہ وعم نوالہ کے حوالہ اور سپردسمجھی گئی ۔چنانچہ حضرت مولانارشیداحمدگنگوہیؒ کا ارشاد ہے کہ

’’مدرسہ مقصودنہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضامقصود ہے!
(مکتوب فقیہ النفس حضرت مولانا گنگوہیؒ،بنام حضرت مولانا محموالحسن دیوبندیؒ وحضرت مولانا خلیل احمدانبہٹویؒ)

اغراض ومقاصد

(الف)علوم اسلامیہ یعنی قرآن مجید وتفسیر وحدیث وفقہ وعقائد وکلام کی مسلمانان عالم کو مفت تعلیم دینا اورعلوم نبوت کو فروغ دینا۔
(ب)دیگر علوم وفنون کی جوعربی زبان کی تحصیل یا مذہبی اغراض کیلئے ضروری یا مفید ہوں،نیز اُردو ،فارسی اور حسابات کی بقدرِ ضرورت تعلیم دینا اور علمی تحقیق کیلئے ایک کتب خانہ کا ہونا۔
(ج) انسانی زندگی کو قرآن وسنت کے مطابق ڈھالنے اور تہذیب اسلامی سے آشنا کرنے کی کوشش کرنا۔
(د)روایات اسلامیہ کا تحفظ احکام شرعیہ کی ترویج ،دین اسلام کی اشاعت وتبلیغ اور ملت اسلامیہ کا تحفظ بذریعہ تحریر وتقریر کرنا ۔
(ھ)دینی تعلیم وتبلیغ کے ذریعہ سلف صالحین کے اسلامی اخلاق واعمال کو زندہ کرنا۔
(ط)علوم دینیہ کی اشاعت کیلئے مختلف مقامات پر مدارس (ومکاتب)دینیہ قائم کرنا اور قائم شدہ مدارس کا مدرسہ سے الحاق کرنا۔

مدرسہ کا مسلک

(الف)مسلک مدرسہ ہٰذا مسلک اہل السنۃ والجماعۃ ،حنفی مذہب پرہوگا جوکہ حضرت اقدس مولانا رشید احمد گنگوہیؒ سرپرست اول مدرسہ ہٰذا وحضرت قاسم العلوم مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اورحضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہم اللہ اجمعین کے مشرب سے ظاہرہے۔
(ب)مدرسہ کا مسلک کی حفاظت ورعایت اور ترویج واشاعت جملہ سرپرستان ،ناظم ومہتمم ،اساتذہ وملازمین ،متعلقین اور طلباء مدرسہ پرلازمی ہوگی۔
(ج)کسی ملازم یا طالب علم مظاہر علوم کو اجازت نہ ہوگی کہ وہ کسی ایسی جگہ شرکت کرے جس جگہ کی شرکت مظاہرعلوم کے مسلک یا مفادکے لئے ضرررساںہو۔
(د) کسی اشتباہ کے موقع پر مجلس یا ناظم کو حق ہوگا کہ وہ مدرسہ کے مسلک کے بارے میں کوئی اعلان جاری کرکے یا تقریر کے ذریعہ غلط فہمی دورکرے۔ ( ازدستور العمل مظاہرعلوم سہارنپور مجوزہ ۱۳۹۹ھ)

سیاسی مسلک

مظاہر علوم کے اکابر کا طرز عمل شروع ہی سے یہ رہا ہے کہ وہ سیاسی معاملات سے ہمیشہ الگ تھلگ اوردُوررہے ہیں اورکھلم کھلاسیاست میں گھسنے کو جامعہ مظاہر علوم کیلئے مضر،اپنے بنیادی مقاصدکے خلاف سمجھتے رہے ہیں ،اگر کوئی سیاسی ہستی اوردنیوی شخصیت اکابر سے عقیدت ومحبت کی بنیادپر ملاقات وزیارت کے شوق میں نعم الامیرعلی باب الفقیرکے طرز عمل پر آہی گئی تو اکابر نے ان کی عظمت ووجاہت کو ملحوظ رکھتے ہوئے کریمانہ اخلاق کا ثبوت پیش کیا اوران کی شایان شان اکرام واعزازفرمایا۔
۱۹۱۷؁ء (۱۳۳۴ھ) میں اس چیز کی وضاحت’’مدرسہ کے اصلی مقاصد‘‘میں ان الفاظ میں بھی کردی گئی تھی کہ
’’یہ امر سب کو معلوم ہے کہ اس مدرسہ میں کسی وقت میں تعلیمی مشاغل کے علاوہ بلاضرورت غیر متعلق مباحث سے کام نہیں لیا گیا اورخصوصاً پولیٹکل معاملات اورسیاسی واقعات سے ہمیشہ اعراض ہی نہیں کیا گیا بلکہ محض بے تعلقی رکھی گئی کیونکہ یہ دونوں باتیں ہمارے (مدرسہ کے)اصل مقصد کے بالکل خلاف تھیں‘‘۔

شائع کردہ: حضرت مولانا عنایت الٰہی مہتمم مدرسہ مظاہرعلوم سہارنپور

حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ نے اپنے دوراہتمام میں ایک بارمختلف اخبارات میں یہ اعلان شائع کرایاکہ
’’آج کل کے حالات کے پیش نظرمیں واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوںکہ مدرسہ مظاہر علوم کا کوئی سیاسی مسلک یا کسی بھی سیاسی جماعت سے اس کی کوئی وابستگی نہیں ہے ،اگر مدرسہ کا کوئی مدرس وملازم یا اس سے متعلق کوئی سیاسی رائے رکھتا ہے تو یہ اس کا نجی اورذاتی فعل ہے ،مدرسہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ‘‘ (آئینہ ٔ مظاہر علوم جلد ۴شمارہ ۴صفحہ ۴)