mazahiruloom@gmail.com 9045818920

صدر المدرسین

(۵) حضرت مولاناعبدالرحمن کاملپوریؒ

حضرت مولاناعبدالرحمن ابن جناب گل محمد۳/شوال ۱۲۹۹ھ مطابق ۲۷/اگست ۱۸۸۲ء کواپنے وطن کیمبل پور(مغربی پنجاب پاکستان)میں پیداہوئے ۔
ابتدائی تعلیم مولانافضل حق شمس آبادی(ؒ جو سیدالطائفہ حضرت اقدس الحاج امداداللہ مہاجرمکی کے شاگردوں میں سے تھے) سے حاصل کی ۔آپ کے دیگراساتذہ میں حضرت مولاناقاضی عبدالرحمن،حضرت مولاناعبدالرؤف اورحضرت مولاناعبدالحکیم وغیرہ لائق ذکرہیں۔
۱۳۳۰ھ میں بغرض حصول علم سہارنپورمظاہرعلوم میں داخل ہوئے اوردوسال تعلیم پاکر ۱۳۳۱ھ میں دورۂ حدیث شریف پڑھ کرفارغ ہوئے۔
مظاہرعلوم میں آپ کے اساتذہ میں شیخ العرب والعجم حضرت مولاناخلیل احمدمہاجرمدنیؒ اور حضرت مولانامحمدیحی ٰ (خلفاء حضرت گنگوہیؒ)بہت نمایاں ہیں۔
دورۂ حدیث کے بعدایک سال مزیددرجہ فنون پڑھ کردارالعلوم دیوبندمیں کباراساتذہ حضرت مولانامحمودالحسن دیوبندی، حضرت مولاناعلامہ شبیراحمدعثمانیؒاورحضرت مولاناعلامہ انورشاہ کشمیریؒ کے سامنے زانوے تلمذطے کیا۔
دیوبندمیں تعلیمی سلسلہ مکمل کرکے حسب الحکم حضرت مولاناخلیل احمدمہاجرمدنیؒ آپ مظاہرعلوم سہارنپورتشریف لے آئے اور پندرہ روپے کے مشاہرہ پر استاذبن گئے،کچھ عرصہ بعدمدرس دوم اور۱۳۴۴ھ میں جب حضرت مولاناخلیل احمدؒمدینہ منورہ تشریف لے گئے تو آپ کے حکم کے مطابق مولاناعبداللطیف پورقاضویؒ کو ناظم اورمولاناعبدالرحمن کاملپوریؒ کا صدرالمدرسین بنایاگیا۔
مظاہرعلوم میں موجودہ نقشہ جوانضباط تعلیم کا رائج ہے وہ آپ ہی کے عہدمیمون کی مبارک یادگارہے۔آپ نے تقریباً ۲۳/سال تک اس باوقارمنصب کووقاروتمکنت اورخوش اسلوبی کے ساتھ ترقی دی۔
مختلف درسی کتابوں کے علاوہ حدیث شریف کی کتابیں مسلم ،ترمذی،مشکوٰۃ،شمائل،نسائی،مؤطاامام محمداورطحاوی کادرس دیا،جن میں سے ترمذی شریف ۱۹/مرتبہ اورطحاوی شریف ۱۶/مرتبہ درس دیا۔
یہ امتیازبھی آپ کو حاصل ہے کہ آپ چھ زبانوں پرگفتگوکرنے اورلکھنے پر قادرتھے جن میں اردو،عربی،فارسی کے علاوہ پشتو،پنجابی اوربنگالی زبانیں شامل ہیں۔
آپ نے اپنااصلاحی تعلق اپنے استاذحضرت مولاناخلیل احمدمہاجرمدنی نوراللہ مرقدہ سے قائم کیااورحضرت کے وصال کے بعدحکیم الامت حضرت تھانویؒ سے روحانی رشتہ قائم فرمالیا۔حضرت تھانویؒ آپ کابہت ہی لحاظ اوراحترام فرماتے تھے اوراپنی مجلسوں میں آپ کا ذکرخیرآنے پر فرمایاکرتے تھے کہ’’ مولاناکامل پوری نہیں کامل پورے ہیں‘‘
حکیم الامت حضرت مولاناتھانویؒ کو آپ کی ذات پراس درجہ اعتمادتھاکہ جوعلماء آپؒ سے بیعت ہوتے تھے تو ان کواصلاح کے لئے حضرت کامل پوریؒ کی خدمت میں بھیج دیاکرتے تھے۔
۱۹۴۷ء میں جب ہندوستان دولخت ہوااس وقت آپ اپنے وطن گئے ہوئے تھے ،پھرحالات ایسے پیچیدہ اورافسوسناک ہوگئے کہ مولاناکاادھرسے آنامشکل ہوگیااورمظاہرعلوم آپ کے فیوض وبرکات سے محروم ہوگیا۔
لیکن وہاں بھی اپناتعلیمی مشغلہ برقراررکھااور مدرسہ خیرالمدارس ملتان میں تین سال تک طلبہ کوحدیث کی تعلیم دی،پھردارالعلوم اسلامیہ ٹنڈوالہ حیدرآبادٹیں کچھ عرصہ شیخ الحدیث رہے اورجامعہ اسلامیہ اکوڑہ خٹک میں بھی شیخ الحدیث کے عہدہ کوسنبال کرچارسال تک درس دیا۔۲۷/شعبان ۱۳۸۵ھ کوآپ کا وصال ہوا۔
نامورعالم دین حضرت مولانامحمدیوسف بنوریؒ نے مولاناکی وفات پراپنے ماہنامہ بینات میں ان الفاظ میں اپناجوتأثرتحریر فرمایاہے وہ درج ذیل ہے۔
’’حضرت مولاناعبدالرحمن ؒکی وفات دنائے علم واخلاق کاایک بڑاحادثہ ہے اورایسے اکابرعلماء کی رحلت امارات ساعۃ میں سے ہے،مولانامرحوم علوم اسلامیہ دینیہ اورنقلی وعقلی فنون کے جامع ترین عالم تھے،اصناف علم وفضل وکمال ان کی شخصیت میں مجتمع تھیں ،وہ عارف تھے،صوفی ومحقق اورفقیہ ومحدث تھے ،علم اصول وکلام کے ایک ماہراصولی اورفاضل متکلم تھے،غرض علمی دنیاکے آفتاب وماہتاب تھے،کوہ وقاروتمکنت،پیکرحلم ورزانت،مجسم خمول ووتواضع اوراصلاح وتقویٰ میں یگانہ روزگارتھے،فطری ملکات میں ان کو نمایاں امتیازحاصل تھا ،ریاضت ومجاہدہ کے بغیرطبعی طورپر مرتاض تھے ،اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو وہبی اورفطری اخلاق ولکات کے وہ مقامات عالیہ عطافرمائے تھے کہ ریاضتومجاہدات کے بعدبھی ان کا حاصل ہوجاناقابل فخراورشرف ہے،اس علم وفضل اورشرف وکمال کے ساتھ انکساری ،تواضع ،خاموشی اورکم گوئی ان کی فطری کرامت تھی۔‘‘
حضرت مولانامفتی محمدشفیع دیوبندیؒ نے آپ کی رحلت پرفرمایاکہ
’’حضرت تھانویؒکے وصال کے بعدہم سب میں تغیرآیااورزمنہ کے حالات سے متأثرہوئے مگرمولاناعبدالرحمن کامل پوریؒ کاکمال ہے کہ آپ میں کوئی تغیرنہیں آیا۔‘‘
حضرت مولاناکامل پوریؒ کے حالات وکمالات پرایک جامع سوانح آپ کے صاحب زادے حضرت مولاناسعیدالرحمن کامل پوریؒ نے ترتیب دے اہتمام سے شائع فرمایاہے۔
آپ کی یادگارعلمی وقلمی خدمات میں ’’الحاوی علی مشکلات الطحاوی‘‘،’’معارف ترمذی‘‘وغیرہ قابل ذکرہیں۔
اللہ تعالیٰ حضرت مرحوم کی مغفرت فرمائے اوردرجات بلندفرمائے۔